” دودھ نکالنے والا فارمولا“

بدھ 1 مئی 2019

Mumtaz Amir Ranjha

ممتاز امیر رانجھا

قوم کوپھر ایک اور نواز شریف کا انتظار ہے کیوں کہ اصلی والے کو تو زبردستی دودھ نکالنے والے کھا گئے۔۔۔۔۔پاکستان میں زیادہ تر دودھ کا بزنس بہت ہی غیر فطرتی طریقے سے کیا جا رہا ہے۔دودھ زیادہ لینے کے لئے بھینسوں کوآکسی ٹوسن نامی انجیکشن لگایا جاتا ہے یا بوسٹر نامی انجیکشن لگایا جاتا ہے جس وجہ سے دودھ میں خون اور پس کی کافی زیادہ مقدار شامل ہو جاتی ہے ۔

یہ دودھ انسانی صحت کے لئے بہت زیادہ مضرصحت ہوتا ہے۔دودھ بنانے کے لئے بعض گوالے جعلی دودھ بنانے کے انتہائی مکروہ طریقے اپنانے سے بھی بعض نہیں آتے۔ غیر معیاری دودھ کی وجہ سے لوگوں کو کینسر،بلڈ پریشر اور شوگر کی بیماریاں لگ جاتی ہیں۔
پاکستانی سیاست میں بھی بعض دفعہ زبردستی کسی بھی انسان کو زبردستی سیاستدان اور عوام پر ملکی حکمران بنانے کا طریقہ بھی جعلی دودھ بنانے والوں کی طرح اپنایا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

ہماری سیاست کی بنیادوں میں ایماند ار، تجربہ کار، محب وطن اور ترقی پسندانسان کو آگے لانے کا فارمولا نہ تو سیاسی جماعتیں اپناتی ہیں اور نہ ہی عوام ووٹ دیتے وقت اس چیز مدنظر رکھتے ہیں۔پھر ہمارے نیب جیسے امپائرز بھی زبردستی ”کئی نام نہاد سیاستدانوں“ کو اپنی ڈگری میں پیمائش کر کے عوام پر مسلط کر دیتے ہیں۔جس طرح نقلی دودھ عوام کا ستیا ناس کرتی ہے اسی طرح نقلی سیاستدان بھی ملک و قوم کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیتا ہے۔


نواز شریف کی طرف سے تین دفعہ ملک میں ترقی پسندانہ کاموں کو نہ صرف فراموش کیا گیا بلکہ اس کو چور ،بے ایمان اور خدانخواستہ غدار جیسا مرتبہ عطا کیا گیا۔پھر بھی عوام نے ن لیگ کو اس الیکشن میں بے شمار ووٹ اور سیٹیں مہیا کیں۔لیکن ہمارے ایمپائرز نے نیب کو پوتر سمجھتے ہوئے اس کی جانب سے ن لیگ اور نواز شریف کے لئے ایسی رکاوٹیں کھڑی کیں کہ پاکستان میں نیا پاکستان کا نعرہ لگانے والی ٹیم عوام کے سروں پر بیٹھ گئی۔

اس نام نہادنئے پاکستان کی نعرہ یافتہ ٹیم نے پچھلے نو مہینے سے ملک کو نو سال پیچھے دھکیل دیا۔ملک و قوم غربت اور معیشی پریشانیوں کے بھنور میں پھنستی جا رہی ہے۔جب نواز شریف کی حکومت میں پٹرول 60روپے تھا تو ان لوگوں نے گو نواز گو کے نعرے بلند کئے۔اب پٹرول 100روپے پر پہنچ گیا ہے لیکن ہمیں ان کی طر ف سے گو عمران گو کا کوئی نعرہ سنائی نہیں دیتا بلکہ ان کے حمایتی ایمپائرز کہتے ہیں کہ بیچارے نئے ہیں حکومت کرتے کرتے تین چار سالوں میں ملک کو بہتر کر ہی دیں گے۔


اصل میں اس وقت بہت ضروری ہے کہ نیب کے ادارے کو غیر سیاسی اور شفاف بنایا جایا ورنہ یہ ادارہ ہر حکومت اور ہر سیاستدان کو اپنی من مرضی کے مطابق بے ایمانی اور ایمانداری کے سر ٹیفیکٹس جاری کرکے اپنی دکان چلا تا رہیگا۔ہم سب کے سامنے ہے کہ اس ادارے نے آج تک اپنے نوے فی صد لگائے جانیوالے الزامات کو درست ثابت کرنے میں مکمل ناکامی کا ثبوت دیا ہے۔

کل جو مجرم بنائے گئے آج ان پر کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا اور جن پر الزامات ہیں ان کو پکڑنے کے لئے کوئی ثبوت نہیں ہے۔
علیم خان ،علیمہ باجی،جہانگیر ترین ،پرویز خٹک اور خود عمران خان صاحب نے نیب سے کہاں کہاں سے ریلیف نہیں لیا؟ساری قوم جانتی ہے کہ جھول کہاں کہاں ہوا ہے؟قوم روٹی کو چوچی نہیں کہتی اور نہ ہی قوم احمقوں کی جنت میں رہتی ہے۔

عمران خان ایک اچھا کھلاڑی ضرور ہے مگر سیاستدان بالکل نہیں۔اس کی پارٹی میں بیٹھے تقریباً سارے سیاستدان یا تو موقع پرست لوٹے ہیں یا پھر نیب کیسز سے بچنے والے ۔چو ہدری برادران کو نیب نے کس طرح کلین چٹ دے دی ہے۔کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے۔
قارئین آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ احقر کالم بہت کم لکھتا ہے اس کی حقیقت یہی ہے کہ موجودہ حکومت ،الیکشن اور پھر اس حکومت کی سلیکشن سب کچھ جعلی ہے۔

جس کو گاڑی چلانی نہیں آتی ،اسے ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھایا گیا ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ سابقہ جسٹس نثار کے پاکستانی تاریخ میں تنگ نظری سے کئے گئے تمام فیصلے ملک و قوم کے جوڑوں میں بیٹھ گئے ہیں۔اس سے پہلے دہشت گردی نے ملک کا بہت نقصان کیا ہے اس کے بعد اس حکومت نے معیشت اور ملک و قوم کو دیمک کی طرح چاٹا ہے۔جو کہتے تھے کہ انہیں عوام کی خاطر نیند نہیں آتی آج انہیں قطعی محسوس نہیں ہو رہا کہ عوام کو ان کے حکمران ہونے کی وجہ سے چین نہیں ملتا۔

مہنگائی اور غربت نے عوام کو ناکوں چنے چبانا شروع کرا دیئے ہیں۔
آپ خود انصاف کریں عوام سے ان سلیکٹڈ لوگو ں کو موجودہ حکومت نے مشیران،وزیران اور کابنینہ میں شامل کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کریں۔دوسری پارٹیوں کا احتساب کرنے کا کنٹینر پر شور مچانے والی موجودہ حکمران پارٹی کا خود احتساب کرنا رہ گیا ہے۔حکومت میں رہ کر بھی حکومت کنٹینر پر کرنے والی زبان نجانے کیوں استعمال کر رہی ہے۔

رمضان شروع ہونے کو ہے لیکن عوام کا بھرکس نکالا جا رہا ہے۔ہسپتالوں میں مریضوں کے علاج میں سہولیا ت کا اتنا فقدان ہے کہ مریضوں کو لوگ کپڑوں پر گھسیٹ کا لیجا رہے ہیں۔تبدیلی کے نام پر عوام کے اند ر تبدیلیاں رونما ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ تبدیلی تو عوام کو کوئی زبردستی دودھ نکالنے والا فارمولا لگتی ہے،جس تبدیلی سے عوام کی رگوں میں غریب اور پریشان حالی کا کینسر بنتا دکھائی دیتا ہے۔
قوم کوپھر ایک اور نواز شریف کا انتظار ہے کیوں کہ اصلی والے کو تو زبردستی دودھ نکالنے والے کھا گئے۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :