اندر کے دشمن ؟؟؟

اتوار 9 فروری 2014

Munawar Ali Shahid

منور علی شاہد

طالبان اور حکومت مابین مذاکرات با لآخر شروع ہو گئے ہیں اور اپنی نوعیت کے منفرد مذاکرات ہیں ایک فریق اس حکومت کی نمائندگی کر رہا ہے جس کا مذہب سر کاری طور پر اسلام ہے اور دوسرا فریق بھی اسلام ہی کے نمائیندگی کا دعویٰ کرتا ہے ان مذاکرات کے بارے فر یقین کی طر ف سے یہی بات بار بار کی گئی ہے کہ ہم امن کے لئے مذاکرات کر رہے ہیں اسلام تو نام ہی امن اور سلامتی کا ہے تو پھر یہاں کس امن کی بات ہے؟
حالانکہ حقیقت اور سچائی کیچھ اور ہے اور اصل میں مسئلہ حکومت کی رٹ،اور قانون کی بالادستی کاہے۔

حکومت کے زیرتسلط جن علاقوں پر کسی اور کا قبضہ ہو جائے تو پھر ریاست اور دور حاضر کی کسی بھی حکومت کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟امن کی بات کسی دوسری پڑوسی ریاست کے ساتھ تو سمجھ میں آتی ہے لیکن وطن عزیز کے حصہ پر قابض گروہوں اور ان میں بھی اکثریت غیر ملکیوں کی ہو تو پھربات مزید غور طلب اور فکر انگیز ہو جاتی ہے اور سوالیہ نشان بن جاتی ہے اور ان حا لات میں جب قابض اور مسلح گروپس اندرونی طور پر حملے بھی کر رہے ہوں،بے گناہ شہریوں اور سر کاری اہلکاروں کو بے دردی سے ہلاک بھی کیا جا رہا ہو۔

(جاری ہے)

عجب بات ہے کہ پر ویز مشرف جس نے آئین کے خلاف ورزی کی ،کے خلاف سخت ترین قانونی کاروائی کی بات ہورہی ہے اور جو لوگ آئین ہی کو نہیں مانتے،اس کی مخالفت کرتے ہیں ان کے ساتھ امن کی نہ صرف بات ہو رہی ہے بلکہ قانونی دھارے میں لانے کا سوچا جا رہا ہے۔پنجاب اسمبلی کی مذاکرات کی حمائت میں قرارداد بھی غلط ہے سری لنکا میں بھی برسوں تک ایسی ہی صورت حال رہی تھی لیکن اب وہاں امن قائم ہے اور پورے ملک پر قانون اور آئین کی بالادستی ہے،کسی بھی ملک میں ایسی صورت حال حقیقت میں یہ ایک بیرونی سازش ہوتی ہے جس کو اندر سے بھر پور معاونت مل رہی ہوتی ہے اور اس کا مقصدملک کی معاشی ترقی کو روکنا اور بے چینی پیدا کر نا ہوتا ہے جس کے پس پردہ عالمی مخصوص مقا صد ہوتے ہیں،عالمی سازش کار فرما ہوتی ہے،برسوں سے ایسے ایجنڈے پر کام کیا جاتا ہے،ایجنڈا کے مطابق اسی نظریات کی حامی جماعتوں اور شخصیات کی پیدائش اور آبپاری اند رون ملک کی جاتی ہے۔

پاکستان میں بھی ضیاء الحق کے دور سے ایسا ہی ہو رہا تھا۔ہزاروں کی تعداد میں دینی مدارس کا قیام،اربوں ڈالرز کی امداد کا مقصد بھی آ ج کے حالات کے لئے اندرونی امداد ہی تھاایک اہم سوال پوری قوم کے سامنے ہے کہ برسوں سے ان مدارس میں زیر تعلیم طلباء فراغت کے بعد کہاں جاتے ہیں؟اور ان کا مصرف کیا ہے؟جب بھی کسی حکومت نے ان مدارس کے آڈٹ یا ان کو سرکاری تحویل میں لینے ،سرکاری نصاب کی بات کی تو اس کو شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔

کیوں ؟ان دینی مدارس کے بارے میں ہوش رباء کہانیاں اور قصے قومی اخبارات کی زینت بن چکے ہیں۔قرآن پاک ایسی آسمانی کتاب کے بعدکسی اور جگہ سے امن،انسان دوستی، رواداری،اخوت،امن و انصاف،اور مساوات کا سبق نہیں مل سکتا۔اور دینی مدرسوں سے تو ناممکن ہے۔آنے والے دنوں میں ان مدارس کے طلباء بارے مزید انکشافات ہو سکتے ہیں جیسا کہ ماضی میں بھی ہوئے تھے۔


عمران خان نے اپنے حالیہ بیان میں امن مذاکرات کے حوالے سے بات کی ہے کہ ان کا حوصلہ افزاء نتیجہ نہیں نکلے گا، حالانکہ اس سے قبل خود ساختہ امن مذاکرات کا سب سے بڑا حامی خود عمران خان تھے۔اس قسم کی قلابازیاں ہی اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ ان کی زبان اور دماغ کسی اور کے زیر تسلط ہوتا ہے جو وقت اور حالات کے مطابق بولتی اور کام کر تا ہے،اسی طرح مولانا فضل الرحمان نے بھی دوڑ لگادی ہے اور انکی سمت کا رخ بھی مخالف سمت کا ہے ان کی سیاسی اور سیاہ تاریخ بھی ایسی ہی ہے تو اسے لوگوں کی آبپاری ایک مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ہوتی ہے اور مولانا وہ کام احسن طریق سے برسوں سے کر رہے ہیں جس پلیٹ میں کھا رہے ہیں اسی میں چھید بھی کر رہے ہیں،ریاست اور پاکستان کے خلاف باتیں بھی کرتے ہیں۔

حقیقت اور سچائی کے برعکس نظریات کے پرچار نے پاکستانی لوگوں کو نہ صرف کنفیوزد کررکھا ہے بلکہ غیر اسلامی تصورات اور شرک کے نزدیک کے قریب کر دیا ہے۔مولانا کا ایک پرانا بیان جو وہ کثرت سے استعمال کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اسلام کو شدید خطرہ لاحق ہے۔۔یہ بات انکی اسلام پسندی کی قلعی کھولتی ہے۔اسلام ایک آسمانی مذہب ہے۔دین ہے جو لافانی ہے اور دنیا کے کیڑے مکوڑے اس کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے لیکن مولانا اس کو دنیا سے خطرات کی مضحکہ خیز بات کرتے ہیں جو ماسوائے ایک سیا سی شعبدہ بازی کے کچھ نہیں۔


تاریخ میں قومیں وہ عزت اور وقار کے ساتھ پھلتی پھولتی ہیں جو ماضی کو یاد رکھتی ہیں لیکن ہمارے ہاں سبھی کیچھ نہ صرف بھلایا جا رہا ہے بلکہ قومی تاریخ سے سچ اور حقائق کو نکال کر جھوٹ اور نفرت کو نوجوان نسل کے سامنے لایا جا رہے ۔پاکستان جیسا خوبصورت ملک بہت کم ہیں۔یہاں قدرتی وسائل کی کمی نہیں،یہاں کا نوجوان قابلیت میں کسی ترقی یافتہ ملک کے نوجوان سے کم نہیں لیکن ناا ہل اور مفاد پرست سیاست دانوں کی اقراء پروری کی بدولت قابلیت کی حق تلفی ہورہی ہے۔ان سب کی صلاحیتوں سے استعفادہ کرنے کے لئے اندر کے دشمنوں کو پہچاننے کی ضرورت ہے یہی ایک روشن مستقبل کا راستہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :