
لاشعوری بت پرستی
جمعہ 31 جنوری 2020

مراد علی شاہد
(جاری ہے)
میری طرح پاکستان کے بہت سے ایسے لوگ ضرور سوچتے ہوں گے جو رات چھ سے بارہ صرف ٹیلی ویژن سکرین کے سامنے بیٹھے ڈرامے اور ٹاک شوز دیکھتے ہیں کہ مختلف چینلز پر دکھائے جانے والے ڈراموں میں کم وبیش ہر ڈرامہ کی ہر قسط میں کرداروں کی اس زاویہ سے ڈرامائی تشکیل کی جاتی ہے کہ پس منظر میں کوئی نا کوئی مجسمہ ضرور دکھائی دیتا ہے،میری دانست میں جدید نسل کو لاشعوری طور پر بت پرستی کی طرف اگر مائل نہیں تو ترغیب کی ابتدا ضرور ہو سکتی ہے کیونکہ نسلوں کو تہذیبی تباہی کی طرف لے جانے کے لئے ایک عرصہ درکار ہوتا ہے اس عمل کے مدارج کچھ اس طرح سے ہوتے ہیں کہ پہلے تہذیبی سقیم میں لاشعوری کوشش،پھر عملا ً اسے درست ثابت کرنے کی شعوری کوشش اور بالآخر کچھ نا کچھ تناسب اسے درست تسلیم کرنا شروع کر دیتا ہے گویا لاشعوری کوشش ہی دراصل شعورکو تکمیل دیتی ہے اپنے اس دعویٰ کی صداقت کے لئے دو مثالیں قارئین کے سامنے پیش کرتا ہوں مجھے امید ہے آپ لوگوں کا بھی ان سے واسطہ پڑا ہوگا لیکن ہمارے ارد گرد بہت سی ایسی باتیں ہوتی ہیں جنہیں ہم زیادہ اہمیت نہیں دیتے حالانکہ وہ ہمارے معاشرہ کا المیہ ہوتی ہیں،جیسے کہ
آپ نے کبھی مشاہدہ کیا ہوگا کہ بازار میں خصوصا جمعرات کو خیرات مانگنے والوں کی ایک کثیر تعداد نظر آئے گی اکثر کیا ہوتا ہے کہ کسی بزرگ مرد یا عورت کے ساتھ لڑکپن عمر کی ایک لڑکی یا لڑکا ضرور ان کے ساتھ ہوتا ہے جن کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ دوکاندار سے خیرات پکڑ کر اپنے ساتھ بزرگ کی ہتھیلی پہ لا کر رکھنا ہوتا ہے حالانکہ وہ بابا جی یہ کام خود بھی کر سکتا ہے کہ جو بندہ گھر سے مانگنے کے لئے نکل پڑا کیا وہ دوکاندار کے دوکان کی ایک دو سیڑھیا چڑھ کر خیرات نہیں پکڑ سکتا،یقینا وہ ایسا کر سکتا ہے لیکن اس سارے عمل کے پس پشت کیا سوچ کارفرما ہوتی ہے،وہ یہ کہ بزرگ یا عورت کے ساتھ ان کا ہاتھ پکڑ کر چلنے یا دوکاندار سے خیرات پکڑنے والے بچے کی دراصل لاشعوری تربیت کی جا رہی ہوتی ہے کہ لڑکپن سے نکل کر جب بچہ جوانی کی عمر کو پہنچے تو مانگنا اس کے لاشعور سے نکل کر اس کے شعور کا جزولاینفک اس طرح سے بن جائے کہ اسے مارکیٹ میں جا کر لوگوں سے خیرات مانگنے میں ذرہ بھر بھی شرم محسوس نہ کرے،آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ لحیم شحیم قسم کے لوگ بھی بازاروں میں خیرات کا کاسہ اٹھائے گھوم رہے ہوتے ہیں،اگر آپ نے کبھی دیکھا ہے تو یہ بات بھی ضرور آپ کے شعور میں آئی ہو گی کہ اتنا موٹا تازہ بندہ کیوں بازار میں لوگوں کے سامنے دست سوال ہے کیا اس کا ضمیر مرچکا ہے،نہیں ضمیر اگرچہ مرا نہیں ہوتا لیکن کیا ہے کہ لاشعور سے وہ بات اس کے شعور کا حصہ بن چکی ہوتی ہے جو وہ بچپن سے عمل پزیر ہو رہی تھی۔
دوسری مثال بھی ضرور آپ کے مشاہدہ سے گزری ہوگی اگر نہیں تو یاددہانی کے لئے عرض کرتا چلوں کہ کبھی آپ کے سامنے سے بھٹہ خشت کا بوجھ اٹھائے ایسی گدھا ریڑی ضرور گزری ہوگی جس میں گدھے کے ساتھ ہی اس کا بچہ ہلکی سی رسی کے ساتھ بندھا گدھے کے ساتھ ساتھ چل رہا ہوتا ہے اگر غور کریں تو یہ بھی اس گدھے کے بچے کی لاشعوری ترغیب ہو رہی ہوتی ہے کہ بڑا ہو کر اسے ایسا ہی کام کرنا ہے۔تربیت یافتہ گدھے کا یہ بچہ جب جوان ہوتا ہے تو بغیر کسی اڑیل کے چپ چاپ اس ریڑھی کا حصہ بن جاتا ہے جس کا مال بردار کبھی اس کا باپ تھا۔پاکستانی ڈراموں میں مجسموں کی تشہیر،دراصل بت پرستی کی لاشعوری ترغیب ہے کہ جس کانتیجہ آنے والے سالوں میں وضاحت کے ساتھ عوام کے سامنے آجائے گا،اس لئے حکومت پاکستان اور پیمرا کو چاہئے کہ ڈراموں میں ایسے سین دکھانے کا سختی سے نوٹس لے تاکہ ہماری نسل اس لاشعوری شر سے محفوظ رہ سکے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.