کمراٹ اور سراج الحق کی جماعت اسلامی
بدھ 26 جولائی 2017
(جاری ہے)
کمراٹ ایک حسین وادی ہے۔ چاروں طرف پہاڑ ہیں۔ جنگل ہیں۔ ساتھ ساتھ دریا بہہ رہا ہے۔
سراج الحق جماعت اسلامی کے ایک مختلف امیر ہیں۔ وہ میاں طفیل بھی نہیں ہیں۔ لیکن وہ قاضی حسین احمد بھی نہیں ہیں۔ وہ سید منور حسن بھی نہیں ہیں۔ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن ان کے جماعت اسلامی کی مروجہ سیاست کے حوالہ سے خیالات بھی مختلف ہیں۔ مجھے اس سفر کے دوران ان سے گفتگو کر کے اندازہ ہوا کہ وہ رنگ و نور سے پیار کرنے والا ایک دلفریب انسان ہے۔ اسے حسن سے پیار ہے۔حسن کے لئے سراج الحق کی یہ محبت یقینا ان کی شخصیت کا ایک چھپا ہوا پہلو ہے۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ حسین وادی نغمہ سرا ہے اور سراج الحق امیر العظیم اور اپنی دیگر قیات کے ساتھ جھوم رہے ہیں۔ وہ سیاحت کی اہمیت کو سمجھتا ہے ۔ لوگوں کے درمیان خوش رہتا ہے۔مقامی لوگ جو سراج الحق کو دیکھنے وہاں اکٹھے ہو گئے تھے۔ ان کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر پنیر کھاتے ہوئے سراج الحق کے چہرے پر خوشی قابل دید تھی۔ وہ کمراٹ کو بدلنا چاہتے ہیں۔ لیکن شاید وہ تحریک انصاف کی حکومت کو قائل نہیں کر سکے۔
سراج الحق جس طرح کمراٹ کو بدلنا چاہتے ہیں۔ وہ اسی طرح جماعت اسلامی کو بھی بدلنا چاہتے ہیں۔ وہ جماعت اسلامی کے مروجہ سیاسی طریقہ کار سے متفق نظر نہیں آئے۔ حیرانگی کی بات ہے کہ وہ جماعت اسلامی کے تنظیمی طریقہ کار سے بھی متفق نظر نہیں آئے۔ ان کے خیال میں جماعت اسلامی کے تنظیمی اور نظم کے طریقہ کار میں بڑی تبدیلیاں ضروری ہیں۔ مجھے کہنے لگے جماعت اسلامی بدل رہی ہے لیکن آہستہ آہستہ بدل رہی ہے۔ تبدیلی کی یہ رفتار تیز ہونی چاہئے۔ میں نے کہا کیا تبدیلی آرہی ہے۔ کہنے لگے میں رحیم یار خان کسانوں کی ایک ریلی میں گیا وہاں منتظمین نے میرے استقبال کے لئے ناچنے والے گھوڑے منگوائے ہوئے تھے۔ میں پہنچا تو انہوں نے مجھ پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں۔ گھوڑوں کا رقص ہوا۔ میں سو چ رہا تھا کہ اب منصورہ جاؤں گا تو میرا حتساب ہوگا ۔ لیکن اب جماعت اسلامی نے اس کو قبول کر لیا۔ جبکہ اگر یہی قاضی حسین احمد کے دور میں ہوتا تو ان کا احتساب ہو جاتا۔ مجلس شوریٰ میں طوفان آجاتا۔ یہی نقطہ آغاز ہوتا ۔ سب کو وضاحتیں دینی پڑتیں۔ اسی طرح اب مینار پاکستان پر جب ہمارا اجتماع ہوا تو تصویروں والے بڑے بورڈ تھے۔ پہلے یہ ممکن نہیں تھا۔ آپ اس تبدیلی کو نہیں محسوس کر رہے لیکن ہم محسوس کر رہے ہیں۔ پہلے جماعت اسلامی میں خود کسی بھی عہدہ کے لئے امیدوار بننا معیوب اور براسمجھا جاتا تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر انتخاب جیتنا ہے تو لوگوں کو خود آگے آنا ہو گا۔ جب تک کوئی خود انتخاب لڑنے کے لئے تیار نہ ہو ہم اسے کیسے انتخاب لڑوا سکتے ہیں۔ یہ سوچ بدلنی ہو گی کہ اگر تنظیم یا جماعت کہے گی تو میں لڑ لوں گا ۔ بھائی آپ تنظیم کو کہیں گے تو پتہ چلے گا۔ کہ آپ لڑ سکتے ہیں کہ نہیں ۔ ہمارے لوگ جماعت اسلامی کے تنظیمی نیٹ ورک پر تو بہت محنت کرتے ہیں لیکن اپنے حلقہ انتخاب پر محنت نہیں کرتے۔ ہم جماعت اسلامی میں اپنے لوگوں کی غمی خوشی میں تو شریک ہونا لازمی سمجھتے ہیں۔ لیکن اپنے علاقہ میں ایسا نہیں کرتے۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ ہمارے لوگ ضلعی و صوبائی شوریٰ کا ممبر منتخب ہونے پر تو پھولے نہیں سماتے۔ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اگر وہ جماعت اسلامی کی ضلعی و صوبائی شوریٰ کا ممبر منتخب ہو سکتے ہیں تو اپنے علاقہ کا انتخاب کیوں نہیں جیت سکتے۔ کیا عوام میں مقبولیت بھی ایک معیار ہونا چاہئے۔ کیونکہ بہر حال اپنے نظریہ کو کامیاب کرنے کے لئے ہمیں عوامی قبولیت درکار ہے۔ اور اس کے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ جو اپنے حلقہ میں جماعت اسلامی کے ووٹ بنک میں اضافہ نہیں کر سکتا۔ وہ جماعت اسلامی کے نظم میں آگے آکر کیا کر لے گا۔ ہمیں اپنے تنظیمی سیٹ اپ میں انتخابی سیاست میں کامیابی کا وزن رکھنا ہو گا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ انتخاب جیتے کوئی اور۔ اور پالیسی بنائے کوئی اور۔
میں نے کہا کہ اس طرح تو آپ انتخاب جیتنے والوں کے لئے جماعت اسلامی کے دروازے کھول رہے ہیں۔ وہ کہنے لگے جو ہمارے ساتھ متفق ہیں۔ ہمارے نظریہ سے متفق ہیں ۔ انتخاب جیت سکتے ہیں۔انہیں کیوں نہ ٹکٹ دیا جائے۔ ان کے لیے راستہ بنانا ہو گا۔ جماعت اسلامی کو اپنے دروازے کھلے رکھنا ہونگے۔ سیاست بند درواز وں کا کھیل نہیں ہے۔ یہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کا کام ہے۔ ہم شا ید یہ بھول جاتے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مزمل سہروردی کے کالمز
-
اگر ’’وہاں‘‘ شہباز شریف ہوتے؟
بدھ 15 نومبر 2017
-
سیاسی جماعتوں میں آمریت بھی ختم کریں
ہفتہ 11 نومبر 2017
-
دوستو: سسٹم کو چلانے میں ہی ملک کی بہتری ہے
منگل 24 اکتوبر 2017
-
حمزہ شہباز جن بوتل سے باہر لے آئے
جمعہ 20 اکتوبر 2017
-
سیاست کی کہانی اور شہباز شریف کہاں کھڑا ہے
بدھ 18 اکتوبر 2017
-
یہ عدم استحکام زیادہ عرصہ نہیں چل سکتا
اتوار 15 اکتوبر 2017
-
غیر مسلم پاکستانی بھی محب وطن پاکستانی ہیں
جمعہ 13 اکتوبر 2017
-
شاہد خاقان عباسی کے نئے اہداف اور مشکلات
بدھ 11 اکتوبر 2017
مزمل سہروردی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.