کمراٹ اور سراج الحق کی جماعت اسلامی

بدھ 26 جولائی 2017

Muzzamil Soharwardi

مزمل سہروردی

کمراٹ پاکستان کی وہ حسین وادی ہے۔ جو ہم سب سے پوشیدہ ہے۔ نہ یہاں سڑک ہے۔ نہ بجلی۔ نہ پانی۔ نہ دیگر سہولیات۔ جہاں سے کمراٹ شروع ہوتا ہے وہاں سے میں واپس جانا چاہتا تھا۔ رات کو دیر تک گفتگو ہو چکی تھی۔ اس لئے میرے خیال میں واپسی ہی درست فیصلہ تھا۔ لیکن محترم سراج الحق کا اصرار تھا کہ مجھے کمراٹ دیکھنا چاہئے۔ یہ کہہ کر انہوں نے مجھے حیران کر دیا کہ خود انہوں نے بھی آج تک کمراٹ نہیں دیکھا۔

جماعت اسلامی کی کے پی کے صوبائی وزرا بھی پہنچ چکے تھے۔جن میں صوبائی وزیر بلدیات عنایت اللہ خان اور صوبائی وزیر خزانہ بھی شامل تھے۔ جماعت اسلامی کے مقامی رکن خیبر اسمبلی رانا محمد علی اس تفریحی دورہ کے میزبان تھے۔ انہیں عرف عام میں چیف آف کوہستان بھی کہا جاتا ہے۔

(جاری ہے)


کمراٹ ایک حسین وادی ہے۔ چاروں طرف پہاڑ ہیں۔ جنگل ہیں۔ ساتھ ساتھ دریا بہہ رہا ہے۔

جیسے جیسے سفر آگے بڑھ رہا تھا۔ قدرت کا حسن بڑھتا جا رہا تھا۔ پہاڑوں کے ساتھ سر سبز میدان ایک دلکش منظر پیش کر رہے تھے۔ میرے لئے حیرانی کا باعث تھا کہ یہاں پر بھی ٹورسٹ تھے۔ چند ہوٹل تھے۔ لیکن یہ عارضی ہوٹل تھے۔ ہوٹلوں میں کمرے نہیں تھے بلکہ دریا کے کنارے کیمپ لگائے گئے تھے۔ میں نے پوچھا یہاں بھی ٹورسٹ آتے ہیں ۔ تو مجھے بتا یا گیا کہ لوگ جیپ پر اور موٹر سائیکلوں پر قدرتی حسن اور موسم سے لطف اندوز ہونے آتے ہیں۔

کمراٹ اس بات کا متقاضی ہے کہ وہاں ٹورازم کو فروغ دیا جائے۔ وہاں امن ہے۔ لیکن اس بات کے لئے ضروری ہے کہ پہلے وہاں سڑک بنائی جائے کیونکہ سڑک کے بغیر کچھ ممکن نہیں۔ جماعت اسلامی کی قیادت وہاں سڑک بنانے کی خواہاں ہے لیکن فنڈز نہیں ہیں۔ وہ فنڈز کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن ابھی کامیابی نہیں ملی۔ سراج الحق اس جگہ کی تعریف کرتے تھی نہیں رہے تھے۔

وہ قدرتی حسن سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ انہوں ے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دیکھیں یہ علاقہ قدرت کی کتنی حسین نعمتوں سے مالا مال ہے۔ یہاں کا سکون دیکھیں۔ لوگوں کی معصومیت دیکھیں۔ ان کی سادگی دیکھیں۔ یہ بھی محب وطن پاکستانی ہیں۔ ان کی پاکستان سے محبت کسی سے کم نہیں۔ لیکن ہم شرمندہ ہیں کہ ہم ان کو ان کا حق نہیں دے سکے۔ سی پیک پر ان کا بھی حق ہے۔

سی پیک کی رونقیں ان تک بھی پہنچنی چاہئیں۔
سراج الحق جماعت اسلامی کے ایک مختلف امیر ہیں۔ وہ میاں طفیل بھی نہیں ہیں۔ لیکن وہ قاضی حسین احمد بھی نہیں ہیں۔ وہ سید منور حسن بھی نہیں ہیں۔ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن ان کے جماعت اسلامی کی مروجہ سیاست کے حوالہ سے خیالات بھی مختلف ہیں۔ مجھے اس سفر کے دوران ان سے گفتگو کر کے اندازہ ہوا کہ وہ رنگ و نور سے پیار کرنے والا ایک دلفریب انسان ہے۔

اسے حسن سے پیار ہے۔حسن کے لئے سراج الحق کی یہ محبت یقینا ان کی شخصیت کا ایک چھپا ہوا پہلو ہے۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ حسین وادی نغمہ سرا ہے اور سراج الحق امیر العظیم اور اپنی دیگر قیات کے ساتھ جھوم رہے ہیں۔ وہ سیاحت کی اہمیت کو سمجھتا ہے ۔ لوگوں کے درمیان خوش رہتا ہے۔مقامی لوگ جو سراج الحق کو دیکھنے وہاں اکٹھے ہو گئے تھے۔ ان کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر پنیر کھاتے ہوئے سراج الحق کے چہرے پر خوشی قابل دید تھی۔

وہ کمراٹ کو بدلنا چاہتے ہیں۔ لیکن شاید وہ تحریک انصاف کی حکومت کو قائل نہیں کر سکے۔
سراج الحق جس طرح کمراٹ کو بدلنا چاہتے ہیں۔ وہ اسی طرح جماعت اسلامی کو بھی بدلنا چاہتے ہیں۔ وہ جماعت اسلامی کے مروجہ سیاسی طریقہ کار سے متفق نظر نہیں آئے۔ حیرانگی کی بات ہے کہ وہ جماعت اسلامی کے تنظیمی طریقہ کار سے بھی متفق نظر نہیں آئے۔ ان کے خیال میں جماعت اسلامی کے تنظیمی اور نظم کے طریقہ کار میں بڑی تبدیلیاں ضروری ہیں۔

مجھے کہنے لگے جماعت اسلامی بدل رہی ہے لیکن آہستہ آہستہ بدل رہی ہے۔ تبدیلی کی یہ رفتار تیز ہونی چاہئے۔ میں نے کہا کیا تبدیلی آرہی ہے۔ کہنے لگے میں رحیم یار خان کسانوں کی ایک ریلی میں گیا وہاں منتظمین نے میرے استقبال کے لئے ناچنے والے گھوڑے منگوائے ہوئے تھے۔ میں پہنچا تو انہوں نے مجھ پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں۔ گھوڑوں کا رقص ہوا۔

میں سو چ رہا تھا کہ اب منصورہ جاؤں گا تو میرا حتساب ہوگا ۔ لیکن اب جماعت اسلامی نے اس کو قبول کر لیا۔ جبکہ اگر یہی قاضی حسین احمد کے دور میں ہوتا تو ان کا احتساب ہو جاتا۔ مجلس شوریٰ میں طوفان آجاتا۔ یہی نقطہ آغاز ہوتا ۔ سب کو وضاحتیں دینی پڑتیں۔ اسی طرح اب مینار پاکستان پر جب ہمارا اجتماع ہوا تو تصویروں والے بڑے بورڈ تھے۔ پہلے یہ ممکن نہیں تھا۔

آپ اس تبدیلی کو نہیں محسوس کر رہے لیکن ہم محسوس کر رہے ہیں۔ پہلے جماعت اسلامی میں خود کسی بھی عہدہ کے لئے امیدوار بننا معیوب اور براسمجھا جاتا تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر انتخاب جیتنا ہے تو لوگوں کو خود آگے آنا ہو گا۔ جب تک کوئی خود انتخاب لڑنے کے لئے تیار نہ ہو ہم اسے کیسے انتخاب لڑوا سکتے ہیں۔ یہ سوچ بدلنی ہو گی کہ اگر تنظیم یا جماعت کہے گی تو میں لڑ لوں گا ۔

بھائی آپ تنظیم کو کہیں گے تو پتہ چلے گا۔ کہ آپ لڑ سکتے ہیں کہ نہیں ۔ ہمارے لوگ جماعت اسلامی کے تنظیمی نیٹ ورک پر تو بہت محنت کرتے ہیں لیکن اپنے حلقہ انتخاب پر محنت نہیں کرتے۔ ہم جماعت اسلامی میں اپنے لوگوں کی غمی خوشی میں تو شریک ہونا لازمی سمجھتے ہیں۔ لیکن اپنے علاقہ میں ایسا نہیں کرتے۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ ہمارے لوگ ضلعی و صوبائی شوریٰ کا ممبر منتخب ہونے پر تو پھولے نہیں سماتے۔

لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اگر وہ جماعت اسلامی کی ضلعی و صوبائی شوریٰ کا ممبر منتخب ہو سکتے ہیں تو اپنے علاقہ کا انتخاب کیوں نہیں جیت سکتے۔ کیا عوام میں مقبولیت بھی ایک معیار ہونا چاہئے۔ کیونکہ بہر حال اپنے نظریہ کو کامیاب کرنے کے لئے ہمیں عوامی قبولیت درکار ہے۔ اور اس کے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ جو اپنے حلقہ میں جماعت اسلامی کے ووٹ بنک میں اضافہ نہیں کر سکتا۔

وہ جماعت اسلامی کے نظم میں آگے آکر کیا کر لے گا۔ ہمیں اپنے تنظیمی سیٹ اپ میں انتخابی سیاست میں کامیابی کا وزن رکھنا ہو گا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ انتخاب جیتے کوئی اور۔ اور پالیسی بنائے کوئی اور۔
میں نے کہا کہ اس طرح تو آپ انتخاب جیتنے والوں کے لئے جماعت اسلامی کے دروازے کھول رہے ہیں۔ وہ کہنے لگے جو ہمارے ساتھ متفق ہیں۔ ہمارے نظریہ سے متفق ہیں ۔ انتخاب جیت سکتے ہیں۔انہیں کیوں نہ ٹکٹ دیا جائے۔ ان کے لیے راستہ بنانا ہو گا۔ جماعت اسلامی کو اپنے دروازے کھلے رکھنا ہونگے۔ سیاست بند درواز وں کا کھیل نہیں ہے۔ یہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کا کام ہے۔ ہم شا ید یہ بھول جاتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :