سیرتِ نبی کریم صلی الله عليه وآله وسلم

ہفتہ 5 جون 2021

Naheed Fatima

ناہید فاطمہ

دنیا تاریکی کی طرف گامزن تھی۔ہر طرف جہالت کے پہرے تھے۔لوگ بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔بیواؤں کو کوئی حقوق حاصل نہیں تھے ان کی دوبارہ شادی کا رواج نہیں تھا ۔ایسے میں انسانیت کو ایک ایسے مسیحا کی ضرورت تھی جو انہیں اس جہالت اور ظلمت کے دور سے نکال کر ایک نئی زندگی کی طرف لے آتا۔
اس ظلمت اور جہالت کے دور میں نور خداکا نزول ہوا۔

خاتم المرسلین، امام الأنبياء والمرسلين، حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله عليه وآله وسلم، وہ ہستی کہ جن کے آنے سے عرب میں بہار آگیٔ. ظلمت  اور جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے جھٹ گۓ. امن و سکون کا پیغام عرب سے نکل کر ساری کائنات میں پھیل گیا۔آپ صلی الله عليه وآله وسلم کی سیرت نہ صرف عرب بلکہ پوری دنیا کے لیے نمونہ بن گئ اور آپ صلی الله عليه وآله وسلم انسان کامل کہلاۓ۔

(جاری ہے)

آپ صلی الله عليه وآله وسلم بچوں، بوڑھوں، عورتوں، جانوروں، قوم درقوم، ملک در ملک، قریہ بہ قریہ، قو بہ قو، یہاں تک کہ جاندار اور بے جان ہر ایک کے لیے مثال بن کر آئے۔
اس نبی کی شان کیا کہیۓ کہ جن کا ذکر تو آسمانوں پہ اس طرح ہوتا ہے کہ ان کے لیے آسمان پہ محفل سجتی ہے اور خود الله اور اس کے فرشتے درود و سلام پیش کرتے ہیں ۔ان کی کیا بات ہے کہ جن کے لیے یہ کاںٔنات سجائی گیٔ دونوں جہان آباد کیے گئے۔


 ہم اگر یوں پورے قد سے کھڑے ہیں تو وہ بھی ان کی بدولت ہے ہمارا یہ سانسوں کا بندھن بھی انھی کے دم سے جوڑا گیا۔ہمیں ان کی ہی خاطر دنیا میں بھیجا گیا وہ محسن انسانیت ہیں.
رسالت مآب صلی الله عليه وآله وسلم کی رحمت  سب کے لیے تھی
اس بات کا ذکر ہمیں قرآن پاک میں یوں ملتا ہے..
الله تعالی کا ارشاد ہے.
وَمَآ أَرْسَلْنَٰكَ إِلَّا رَحْمَةًۭ لِّلْعَٰلَمِينَ.
اور (اے محمدﷺ) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت (بنا کر) بھیجا ہے
آپ صلی الله عليه وآله وسلم کی زندگی کے اگر ایک ایک پہلو کا احاطہ کیا جائے تو ہمیں اس کی عملی طور پہ بہترین مثالیں ملتی ہیں.
حضرت ابن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ الله تعالیٰ نے نبی کریم صلی الله عليه وآله وسلم کو تمام جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

مومنوں کے لیے بھی اور کافروں کے لیے بھی۔ مومنوں کو تو الله تعالیٰ آپ کے ذريعے سے ہدایت دیتا ہے اور آپ پر ایمان کی بدولت جنت میں داخل کردیتا ہے ۔ باقی رہے کافرتو  آپ کی برکت کے باعث  ان سے بھی  وہ عذاب و آفات ٹال دیے جاتے ہیں جوآپ سے پہلے  رسولوں کی تکذیب کرنے والے لوگوں پر نازل ہوتے رہے"۔
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه کی ایک حدیث سے بھی اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ نبئ کریم صلی الله عليه وآله وسلم کی رحمت سارے جہان کے لیے ہے۔


وہ فرماتے ہیں :آپ سے عرض کی گئی :" الله کے رسول! مشرکین کے خلاف دعا کیجئے "آپ نے فرمایا :
إِنِّي لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانًا ، وَإِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً ” مجھے لعنت کرنے کے لیےنہیں بھیجا گیا، مجھے تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے” ۔
ان کی زندگی کے اگر ایک ایک پہلو پہ بات کی جائے تو ایک ایک پہلو پہ پورا باب لکھا جا سکتا ہے لیکن پھر بھی ان کا ذکر نہیں کیا جاسکتا۔

جیسے تسبیح کے دانے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں ان میں سے کسی ایک کو بھی کسی دوسرے سے جدا نہیں کرسکتے۔ ان دانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہنے میں ہی خوبصورتی ہے۔ اگر ایسا کریں گے تو تسبیح ٹوٹ کے بکھر جائے گی
نبئ رحمت صلی الله عليه وآله وسلم کی حیات طیبہ کے سارے پہلو ایک دوسرے کے ساتھ تسبیح کے دانوں کی طرح جڑے ہوئے ہیں اور ایک سے ایک بڑھ کے خوبصورت ہے.
زندگی بیت گئی اور قلم ٹوٹ گئے
تیرے اوصاف کا اک باب بھی پورا نہ ہوا
 پیارے آقا کریم صلی الله عليه وآله وسلم کے ہم پہ بہت زیادہ احسانات ہیں۔

 
یہاں یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ ان کا شکریہ کیسے ادا کیا جا سکتا ہے؟
ان کی تعلیمات پہ عمل پیرا ہو کر، ان کی سنتوں پہ عمل کر کے، ان کا شکریہ ادا کر سکتے ہیں۔ تو کیا ہم اس آقا کریم صلی الله عليه وآله وسلم کی سنتوں یا ان کی تعلیمات پہ عمل کر رہے ہیں؟
ہمیں اپنا احتساب کرنا ہوگا کہ کیا ان پیارے نبی کریم صلی الله عليه وآله وسلم کے امتی ہونے کا ہم حق ادا کر رہے ہیں؟
 جنھوں نے اپنی ساری زندگی ہمارے لیے وہ عمدہ مثالیں قائم کی ہیں کہ جن کی تعلیمات کو مسلمان ہی نہیں کافر بھی ماننے پہ مجبور ہو گئے ہیں ۔

جو کچھ انہوں نے ہمیں  ١٤٠٠ سو سال پہلے بتا دیا اسے آج سائنس نے بھی ثابت کر کے بتا دیا ہے کہ ان کی ایک ایک بات سچ ہے۔
 ہمارے نبئ اکرم صلی الله عليه وآله وسلم کی رحمت سب کے لیے عام تھی ان کی زندگی سے اس کی  بہت خوبصورت اورعمدہ مثالیں ملتی ہیں
مومنین پہ آقا کریم صلی الله عليه وآله وسلم کی بہت خاص رحمت تھی
الله تعالیٰ نے فرمایا :
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُولٌۭ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِٱلْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌۭ رَّحِيمٌۭ.
(لوگو) تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں۔

تمہاری تکلیف ان کو گراں معلوم ہوتی ہے اور تمہاری بھلائی کے خواہش مند ہیں اور مومنوں پر نہایت شفقت کرنے والے (اور) مہربان ہیں.
الله تعالیٰ نے نبئ کریم صلی الله عليه وآله وسلم کو ساری انسانیت کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے مگر آپ کا خصوصی تعلق مومنین  سے ہی تھا ۔ وہ ہی آپ کے مقام کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور آپ سے فیض حاصل کرتے تھے۔ آپ ان کے انتہائی خیر خواہ تھے اور ان پہ  بڑے شفیق و مہربان تھےحتی کہ ان کے والدین سے بھی بڑھ کر شفقت فرماتے تھے ۔

امت پہ بھی فرض ہے کہ آپ پر ایمان لائے اور آپ کی بھرپور تعظیم و توقیر کرے۔
 اپنے پیارے نبی اکرم صلی الله عليه وآله وسلم سے اپنی محبت کا عملی ثبوت دے
حضرت ابن عباس رضی الله عنہ کا بیان ہےشہنشاہ انبیاء، رسول خدا صلی الله عليه وآله وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی اپنےوالدین کی طرف ایک مرتبہ رحمت کی نظر سے دیکھے الله اس کے لیے ہر نظر کے بدلے میں ایک مقبول حج لکھ دے گا۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اگر کوئی سومرتبہ دیکھے تب بھی یہی بات ہے؟ آپ نے فرمایا : خدا بہت بڑا ہے اور ہر عیب سے پاک ہے۔اور رسول خدا صلی الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ باپ جنت کے دروازوں میں سےسب سے اچھا دروازہ ہے، اب تجھ کو اختیار ہے کہ اس دروازہ  کی حفاظت  کرے یا ضائع کر دے۔
جب مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تو کفارِ مکہ ان کا تعاقب کرتے ہوئے ہرقل کے دربار میں جا پہنچے۔

ہرقل نے ابو سفیان سے پوچھا کہ جس پیغمبر کے خلاف تم برسرِ پیکار ہو وہ تمھیں کس بات کا حکم دیتا ہے؟ ابوسفیان نے عہد کفر میں ہونے کے باوجود گواہی دی ’وہ کہتے ہیں صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور وہ ہمیں نماز پڑھنے، سچ کہنے، عفت و پاکدامنی اختیار کرنے اور صلہ رحمی کرنے کا حکم دیتے ہیں۔‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ منورہ آئے تو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن امور کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کروائی ان میں سے ایک صلہ رحمی بھی ہے۔

چنانچہ حضرت عبد اللہ بن سلام فرماتے ہیں:
’نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگ آپ کے پاس جمع ہو گئے اور آپ نے جو باتیں کیں ان میں سے جو میں نے سنا سب سے پہلے آپ نے فرمایا: ’اے لوگو! سلام کو عام کرو، بھوکوں کو کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو، راتوں کو جب لوگ سوئے ہوئے ہوتے ہیں تم نماز ادا کرو، اس طرح آسانی و سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔


 ایک حدیث شریف میں آپ نے فرمایا:
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ح وَحَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ‏"
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے ماں باپ، اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر مجھ سے محبت نہ کرے۔


سرور کونین صلی الله عليه وآله وسلم نےاپنی ساری زندگی اپنی امت سے بہت پیار کیا انھوں نے دنیا سے پردہ فرمانے تک الله پاک سے امت کی بخشش کی دعا فرمائی۔اب پوری امت کا یہ فرض ہے کہ ہم امت محمدی ہونے کا عملی ثبوت پیش کریں ۔ان کی تعلیمات اور سنتوں پہ عمل پیرا ہو کر اپنی زندگیوں کو ان کے نام پہ وقف کر دیں اس کی روشن مثال ہمیں صحابہ کرام رضی الله عليه اجمعین کی زندگیوں سے ملتی ہے، ہم ان کی پیروی کریں۔

امت مسلمہ ہونے کے ناطے سے ہر کوئی ان کے نام پہ مر مٹنے کو تیار ہوجاتا ہے لیکن ہمیں اپنی زندگیوں سے ان کی آخری امت ہونے کا عملی ثبوت دینا ہے اور ان کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو خاک میں ملانا  ہے اور اپنے ایک ایک عمل سے غیر مسلموں کو دیکھا دو کہ ہمارے نبی کریم صلی الله عليه وآله وسلم سے ہمارا کیا رشتہ ہے اور ہماری زبانیں بول اٹھیں کہ
بتلا دو گستاخ نبی کو غیرت مسلم زندہ ہے
دین پہ مرمٹنے کا جذبہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :