خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

جمعہ 10 ستمبر 2021

Naheed Fatima

ناہید فاطمہ

الله تعالیٰ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو فرشتوں نے الله کے حکم سے انہیں سجدہ کیا،الله تعالیٰ نے یہ عظیم منصب انسان کو علم و شعور کی بناء پر دیا، اسی وجہ سے الله نے انسان کو اشرف المخلوقات کے افضل مقام پر فائز کیا .چنانچہ انسان دنیا میں الله کا خلیفہ بنا کر بھیجا گیا ہے، گویا انسان خلیفہ اور الله مخلف، خلیفہ مخلف کا آئینہ ہوتا ہے.


ہر خلیفہ کے ذمہ کچھ فرائض ہوتے ہیں، جوکہ اسے بجا لانے ہوتے ہیں، اسی طرح انسان چونکہ الله کا خلیفہ بنا کر بھیجا گیا ہے تو اس کے بھی کچھ فرائض ہیں، کچھ ذمہ داریاں ہیں، جو ہر انسان نے اپنی زندگی میں سرانجام دینی ہوتی ہیں. الله تعالیٰ نے انسان کو عقل ودانش کی بناء پر باقی تمام مخلوقات سے افضل قرار دیا ہے تو گویا انسان اس کا بہترین انداز میں استعمال کر کے اپنی خودی کو پہچان سکتا ہے، خودآگاہی حاصل کرسکتا ہے.

انسان کا اپنی صلاحیتوں کا کھوج لگانا بہت ضروری ہے، کیونکہ اسی طرح سے وہ اپنے دنیا میں آنے کے مقصد کو پا سکتا ہے اور خالق حقیقی سے اپنے تعلق کو مضبوط بنا سکتا ہے.
قرآن مجید میں الله تعالیٰ نے سوچ بچار کرنے کے بارے میں فرمایا ہے کہ  
” اس نے زمین اور آسمانوں کی ساری ہی چیزوں کو تمہارے لیے مسخر کر دیا، سب کچھ اپنے پاس سے اِس میں بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنے والے ہیں.“
(سورۃ جاثیہ آیت نمبر 13 )
اسی طرح علم و شعور کے ذریعےاپنی صلاحیتوں کو جانچا جاسکتا ہے، ان میں مزید نکھار لایا جاسکتا ہے اور خودآگاہی میں مدد حاصل کی جاسکتی ہے.


گویا علم کی اہمیت اور فضیلت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ الله تعالیٰ نے پیارے نبی کریم صلی الله عليه وآله وسلم پرجو پہلی وحی حضرت جبرائیل آمین علیہ السلام کے ذریعے نازل فرمائی ہے، اس میں علم پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے،اس سے علم کی فضیلت واضح ہوتی ہے.
الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :
” اے محمد صلی الله عليه وآله وسلم اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے( عالم کو) پیدا کیا جس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا، پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے، جس نے قلم کےذریعے سے علم سکھایا اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جس کا اس کو علم نہ تھا.“
(سورہ علق کی 1تا 5 آیات)
ہر انسان کو یہ جاننے کی، اپنے اندر کھوج لگانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اسے دنیا میں بھیجنے کا اصل مقصد کیا تھا؟
جب اپنے اندر کھوج لگانے کی بات آتی ہے تو شاعر مشرق علامہ محمد اقبال صاحب اپنی شاعری میں خودی کا باربار پیغام دیتے نظر آتے ہیں.


اب یہاں یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ،” خودی کیا ہے“؟
” خودی کامطلب اپنے آپ کو جان لینے کا نام ہے، اس کائنات میں آنے کے مقصد کو جان لینے کا نام ہے“. خودداری،” خودی کا دوسرا نام ہے “.
ہم خودی کو تکبر اور غرور کے معنوں میں ہرگز نہیں لے سکتے ہیں. خودی کا مطلب کسی بھی انسان کےآگے جھکنا نہیں ہے بلکہ اس ایک رب کے آگے سجدہ ریز ہونا ہے.


وہ انسان جو الله تعالیٰ کی بارگاہ چھوڑ کر کسی انسان کے سامنے سر جھکاتا ہے اور دست سوال پھیلاتا ہے تو اس کی انسانیت ختم ہو کر رہ جاتی ہے اور اس کی شخصیت مرجاتی ہے، اس کے وجود کا حسن ختم ہو جاتا ہے، غیر کے آگے جھکنے سے دل اور جسم دونوں مرجاتے ہیں گویا کسی کا سہارا لینے سے شخصیت کا وقار ختم ہو جاتا ہے.
”جو خودی کو پالیتے ہیں ان کی نظر میں دنیا اور سامان دنیا کوئی اہمیت نہیں رکھتے، بندوں کے سامنےکسی غرض کی خاطر جھکنے کو وہ خودی کی موت سمجھتے ہیں.“
علامہ اقبال نے ایک شعر میں فرمایا :
اے طائرلاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
مانا کہ یہ حقیقت ہے کہ انسان انسان کے کام آئے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہو کیونکہ مدد کرنا عبادت ہے، اخوت ہے اوروہ  ہر ممکن حد تک ایک دوسرے کی مدد کرے، مگر انسان کسی دوسرے انسان کو خدا سمجھ کر اس سے مانگے تو یہ توحید کے خلاف ہے، گناہ کبیرہ ہے.


وہ رب مسبب الاسباب ہے، اپنے کرم سے، فضل سے ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جس سے اس کی مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں. الله تعالیٰ کے سوا کسی انسان سے مانگنا خودی کی موت ہے.
ہمت ہے تو پیدا کر  فردوسِ بریں اپنا
مانگی ہوئی جنت سے دوزخ کا عذاب اچھا
انسان پہ ہر طرح کے حالات آتے ہیں، کبھی غریبی آتی ہے تو کبھی خوش حالی آتی ہے، کبھی خوشی، کبھی غم اور انہیں دو چیزوں کے ملاپ سے زندگی ہے لیکن انسان کو اپنی خودی کو مجروح نہیں ہونے دینا چاہیے.


اسی لیے اقبال نے اپنے بیٹے جاوید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا لیکن یہ پیغام ہر مسلم نوجوان کےلیے تھا کہ
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
علامہ محمد اقبال صاحب نے ان الفاظ میں سارے فلسفہ کی روح کو بیان کردیا ہے.” اپنی خودی کو کسی بھی قیمت پر نہ بیچو! خودی خود آگہی کا دوسرا نام ہے.

اگر انسان حرص دنیاوی سےقطع نظر کرکے غور و فکر سے کام لے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح اس پر واضح ہو سکتی ہے کہ غریبی میں بھی نام پیدا کیا جاسکتا ہے. انسان عزت اور شہرت حاصل کرنے کے لیے ہی اپنی خودی کو بیچتا ہے اور اس کے عوض دولت حاصل کرتا ہے.
اگر انسان ہمت و استقلال اور ثابت قدمی سے کام لے تو غریبی میں بھی نام پیدا کیا جاسکتا ہے، لہٰذا نام پیدا کرنے کے لیے ضمیر فروشی کی ضرورت نہیں ہے.

اقبال کے زمانے میں بہت سے لوگوں نے اپنی خودی کو بیچ کر نام تو پیدا کر لیا لیکن وہ دیرپا نہیں تھا کیونکہ خودی کو بیچنے میں شخصیت کی ہی نہیں بلکہ انسانیت کی بھی موت ہے. اس لیے نہ تو انہیں حسین رضی الله تعالیٰ عنہ جیسا فضل نصیب ہو گا اور نہ ہی سکندر کی حیات.
انسان کو ہر حال میں الله تعالیٰ سے امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ جب انسان پہ مشکل آتی ہے تو الله پاک اس کے ساتھ آسانی بھی دیتے ہیں، جیسے ہر رات کے بعد صبح ضرور آتی ہے، ایسے ہی ہر مشکل کے بعد آسانی ہوتی ہے اور ہر غم کے بعد راحت ملتی ہے.

کبھی بھی مشکل گھڑی میں امید کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے کیونکہ اندھیرے میں روشنی کی طرح امید کسی بھی مایوسی سے نکلنے کا راستہ ہوتی ہے.
الله تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے :
’’ پس یقیناً مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔

(جاری ہے)

بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے.“
انسان میں الله تعالیٰ کی صفات کی جھلک ہونی چاہیے، الله بے نیاز ہے کسی کا محتاج نہیں، اس لیے انسان کو بھی کسی کا محتاج نہیں ہونا چاہیے، وہ الله تعالیٰ کے سوا کسی کا سہارا نہ ڈھونڈے، اس کے سامنے سر جھکائے اور اسی کی چوکھٹ پہ بھکاری بن کر جاۓ، اسی کے سامنے سجدہ ریز ہو، اسی کا نام خودی ہے اور یہ ہی انسانیت ہے.


انسان کو اس بات سے آگاہ ہونا چاہیے کہ الله تعالیٰ نے انسان کو وہ رتبہ دیا ہے کہ جس کی وجہ سے فرشتے بھی انسان کے آگے جھکتے ہیں اور اسی بناء پر کائنات کی ہر چیز پر اس کی حکمرانی ہے، الله تعالیٰ نے انسان کو تمام مخلوقات میں افضل مقام عطا فرمایا ہے.
ہر انسان کو الله تعالیٰ نے دوسرے سے مختلف بنایا ہے اسے مختلف صلاحیتیں اور قابلیتیں عطا فرمائی ہیں ان صلاحیتوں کا کھوج لگا کر انسان اپنی خودی کو پہچان سکتا ہے اسی لیے ہر نوجوان کو اقبال کا شاہین بننے کی ضرورت ہے.


ضروری نہیں کہ آپ کے پاس بہت زیادہ وسائل موجود ہوں، کم وسائل کے ساتھ بھی اگر سچائی، تسلسل اور لگن کے ساتھ کڑی محنت کی جائے تو قدرت کا نظام انصاف آپ کو غیر معمولی ہستی بنا دیگا. حکومتوں اور انسانوں سے گلے شکوے چھوڑیں اور سچائی کی بنیاد پر کام شروع کردیں. بھر پور توانائی اور توجہ کے ساتھ آپ پاکستان میں رہتے ہوئے اقوام عالم کو اپنی ذہانت، قابلیت اور تخلیق سے مسخر کیا جاسکتا ہے.


 پاکستان کو الله تعالیٰ نے بے شمار اور لازوال خزانوں سے نوازا ہے اگر ان خزانوں کا کھوج لگا کر اس سونا اگلتی زمین کو اپنے پسینوں سے سیجا جائے توہم ان لازوال خزانوں کواپنے ملک کی ترقی کے لئیے استعمال کرسکتے ہیں، نہ صرف اپنے ملک کے لیے بلکہ جو ہم آج دوسرے ممالک کے آگے ہاتھ پھیلانے پرمجبور ہیں، ہم اسے برآمدات کے طور پر استعمال کر کے ترقی یافتہ ممالک کی صف اول میں کھڑے ہو سکتے ہیں.


ہمارے ملک پاکستان میں شاعر مشرق علامہ اقبال جیسے عظیم مفکر اور بہت سی ایسی کتنی شخصیات کی مثالیں موجود ہے.
ان عظیم شخصیات کی زندگیوں سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں.
اگر پاکستان اقوام عالم میں اپنا نام بنانا چاہتا ہے تو آج کے نوجوانوں کو اپنے آباؤ اجداد کی زندگیوں کو اپنا رول ماڈل بنانا ہوگا،اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جیسی صفات اپنانا ہوں گی. سب سے بڑھ کر ہمارے پاس پیارے نبی کریم صلی الله عليه وآله وسلم کی حیات طیبہ مبارکہ اور قرآن مجید موجود ہیں، ہم قرآن مجید میں الله تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیمات اور پیارے نبی رحمت العالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله عليه وآله وسلم کی احادیث مبارکہ اور سنتوں پر عمل پیرا ہو کر اپنی زندگیوں کو بہترین بنا سکتے ہیں.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :