بنت حوا اور ہم

منگل 7 ستمبر 2021

Naheed Fatima

ناہید فاطمہ

بچپن میں بچے کو جب اس کی کسی بھی غلط حرکت پہ  والدین روک ٹوک نہیں کریں گے، اسے سمجھایٔں گے نہیں کہ بیٹا ایسے نہیں ایسے کرنا ہے تو وہ کیسے سیکھے گا؟
اس لیے کسی بھی بچے کی غلط حرکت کی ذمہ داری اس کے والدین پر آتی ہے  
بہت سے والدین اپنے بچوں کو ان کی غلط حرکت پہ سمجھاتے نہیں ہیں کہ بچہ ہے اور بچے تو ایسی حرکتیں کرتے ہیں، انہیں بچہ سمجھتے سمجھتے وقت یوں ہی  گزر جاتا اور اس طرح بچوں کے حوصلے بھی مزید بڑھ جاتے کہ ہمارے والدین نے کسی بھی بات پہ ہمیں کچھ کہنا تو ہے نہیں، بس اب جو مرضی کرتے رہو.


بچے نا سمجھ ہوتے ہیں انہیں صحیح غلط کی پہچان نہیں ہوتی، انہیں سمجھانا والدین کا کام ہوتا.

(جاری ہے)


والدین کو ان پہ نظر رکھنی چاہیے کہ ہمارا بچہ کس سے مل رہا ہے، کہاں جا رہا ہے یا کہاں سے آرہا ہے، بچے سکول جاتے ہیں مختلف لوگوں سے ملتے ہیں، باہر اچھے اور برے ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں..
ماں کو بچے کی پہلی درس گاہ بھی کہا جاتا ہے تو ماؤں کو اپنے بچوں کی تربیت میں خصوصی توجہ دینی چاہیے، آجکل کی مائیں اپنے بچوں کی پیدائش کے فوراً بعد ہی رونے پہ انہیں موبائل کھیلنے کے لئے تھما دیتی ہیں اور بچے ناچ گانے سے خوب دل بہلاتے ہیں حالانکہ یہ چھوٹے بچوں کے لئے بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے.

بچے بڑوں کو جیسے کرتا ہوا دیکھتے ہیں وہ ویسا ہی کرتے ہیں، جب والدین خود الله کے دین پہ عمل نہیں کرتے تو بچے کہاں سے سیکھیں گے؟؟
ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ اب والدین اپنے بچوں کی پرورش پہ ویسے توجہ نہیں دیتے جیسے پہلے دی جاتی تھی اور اب سوشل میڈیا کا دور ہے تو والدین کو مزید اپنے بچوں پہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.والدین کو کلمہ اپنے بچوں کی گھٹی میں شامل کرنا چاہیے ناکہ پیدا یوتے ہی ناچ گانے پہ لگا دیں، اگر کلمہ ان کی گھٹی میں شامل ہو جائے گا تو وہ بڑے ہو کر بہت اچھے انسان اور مسلمان بن سکتے ہیں ورنہ ناچ گانے سے ان کا مستبقل تباہ ہی ہونا ہے.والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو سمجھایٔں بلکہ سکھائیں کہ صرف گھر کی عورتوں کی ہی عزت نہیں کرنی بلکہ ہر وہ باہر نظر آنے والی عورت بھی گوشت کی دکان نہیں ہے وہ بھی ایک جیتی جاگتی، سانس لیتی انسان ہے اس کی بھی عزت کرنا اپنی اولاد کو سکھائیں.


آجکل موبائل کا استعمال بے دریغ اورغلط ہونے لگا ہے، سوشل میڈیا پہ جو برہنہ اور فحاشی کے اشتہارات چلاۓ جاتے ہیں،مغربی اور ہمسایہ ملک کی فلموں میں جو کچھ دکھایا جاتا ہے اور رہی سہی کسر ان ڈراموں نے نکال دی ہے جہاں اس نے لوگوں میں چھپی حوس کو ہوا دی ہے، وہاں اس نے درندگی اور ہراسگی کے واقعات میں لاتعداد اضافہ بھی کیا ہے.
 جس معاشرے میں الله پاک کے احکامات اور پیارے نبی کریم صلی الله عليه وآله وسلم کی تعلیمات کو پابندیاں اور پاؤں کی بیڑیاں کہا جاتا ہو، وہاں پھرایسی خرافات ہی جنم لیتی ہیں.
قرآن پاک میں الله پاک نے ارشاد فرمایا ہے کہ
"اے پیغمبر! اپنی بیویوں بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادر کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نا جائیں"
(سورہ الاحزاب آیت 5)
میں ہمیشہ سوچتی ہوں کہ ہمیں الله پاک کے گھر کھلے عام جانے کی اجازت نہیں ہے، وہاں بھی آپ اپنے محارم کے اور مکمل پردے کے بغیر نہیں جاسکتے تو کہیں بھی باہر کھلے عام کیسے جاسکتے ہیں؟؟
ایسے فحش آدھے ادھورے کپڑے آپ اپنے محارم کے سامنے پہن کر نہیں جاسکتے تو غیر محرموں کے سامنے کیسے جاسکتے ہیں؟ اگربچپن میں ہی بچوں کومناسب کپڑے پہننے کی عادت ڈالی جائے تو بڑے ہو کر بھی انہیں ویسے ہی کپڑے پہننے کی عادت بن جائے گی.

جو لوگ کہتے ہیں کہ خواتین کے کپڑوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ جیسے مرضی کپڑے پہن کر گھر سے باہر غیر محارم کے سامنے جا سکتی ہیں، میں سمجھتی ہوں وہ بھی ان عورتوں کے ساتھ ساتھ الله پاک کے حکم سے بغاوت کر رہے ہیں. جب الله پاک نے قرآن مجید میں فرما دیا ہے کہ یہ راستہ تمہارے لیے بہتر ہے اسے اپناؤ فائدہ میں رہو گے ورنہ نقصان ہی نقصان ہے،تو پھرجو کچھ بھی آج ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے اس پہ بیٹھ کرجتنا بھی اپنا سر پیٹتے رہو کم ہے، ایک طرف آپ الله پاک کے حکم  کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایسا بھی نہ ہوتو یہ ممکن نہیں ہے،پھر ایسے بھلائی کبھی بھی نہیں ہو سکتی.


وہ دوپٹہ جسے عورت کا حسن کہا جاتا تھا اور زیب و زینت قرار دیا جاتا تھا، اسے سر کی بجائے گلے میں ایک چھوٹی سی پٹی کی طرح لٹکا لیا گیا اور اب دیکھتے ہی دیکھتے دوپٹہ گلے سے بھی غائب ہی ہو گیا ہے، لیکن ڈراموں میں کسی کو غریب دیکھانا ہے تو وہاں آپ کو دوپٹہ کہیں نہ کہیں ضرور ملے گا یا پھر ماڈلنگ کرتے ہوئے مرد حضرات کے کندھے سے لٹکتا ہوا ملے گا.


ایسے میں آپ گھر سے باہر نکلیں اور خود کو محفوظ بھی تصور کریں تو ایسا ممکن ہی نہیں ہے.
ایک طرف آپ مردوں کو بےحیائی کی دعوت دے رہی ہیں اور یہ بھی کہتی ہیں کہ سارا قصور ہی مردوں کا ہے. الله پاک نے تو قرآن پاک میں ارشاد فرما دیا کہ زمانہء جاہلیت کی طرح بناؤ سنگار کر کے باہر نہ نکلو.
ترجمہ :
"اور اپنے گھروں میں قرار کے ساتھ رہو اور بناؤ سنگھار نا دکھاتی پھرو جیسا پہلے جاہلیت میں دکھایا جاتا تھا،اللہ تعالٰی تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے گندگی کو دور کردے اور تمہیں ایسی پاکیزگی عطا کرے جو ہر طرح سے مکمل ہو"
(سورہ الاحزاب آیت 33(
جب آپ الله پاک کے احکامات کی پیروی نہیں کریں گے تو خود کو کیسے محفوظ سمجھ سکتے ہیں.


میں سمجھتی ہوں کہ عورتوں کو خود اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ لوگ ان سے کوئی بھی فضول بات کرتے ہوئے ڈریں،اور جب الله پاک کے حکم کے مطابق گھر سے باہر نکلیں گی تو کسی کی جرات نہیں ہو گی کوئی آپ کو چھیڑ سکے یا بری نظر بھی ڈال سکے.
میں معاشرے میں بڑھتے ہوئے ان واقعات کا قصوروار مردوں کے ساتھ ساتھ بہت حد تک عورتوں کو بھی سمجھتی ہوں. جہاں تک بات ہے چھوٹے بچوں کے ریپ کی توکچھ گندی بھیڑیں ہیں جنہوں نے ہمارے معاشرے میں تباہی مچائی ہوئی ہے جس کی وجہ سے چھوٹے بچے، بچیاں ان کی حوس کا نشانہ بن جاتے ہیں، انہوں نے ہی سارے مردوں کو بدنام کیا ہوا ہے.


مرد تو باپ کی شکل میں جنت کا دروازہ، بھائی اور شوہر کے روپ میں عورت کا محافظ اور عزت کا رکھوالا بنایا گیا ہے.
عائشہ کے واقعہ کے متعلق میں یہ کہنا چاہوں گی کہ اس نے اپنے فینز کو خود بلایا اور سلفیاں لینے کی اجازت دی، پھر دیکھتے ہی دیکھتے کتنے لوگ وہاں جمع ہوگئے اور چار سو لوگوں نے اس کے ساتھ بدتمیزی کی ساری حدیں پار کر دیں اس کے کپڑے نوچ ڈالے،لیکن جو بھی ہے اس نے لوگوں کو وہاں بلایا یا نہیں،
مگر اس کے ساتھ ایسے ہر گز نہیں ہونا چاہیے تھا جو بھی ہوا اس کے ساتھ بہت ہی برا ہوا، اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے لیکن وہ اس ملک کی بیٹی تھی ، جس کے بارے میں دوسرے ممالک کے لوگ مثالیں دیتے ہیں کہ پاکستان میں عورتوں کی عزت و عصمت کی پاسداری کی جاتی ہے، کیونکہ ہم ایک اسلامی ملک میں رہتے ہیں اور اسلام نے جو عورتوں کو عزت دی ہے وہ کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی ،ان حوس کے ماروں کو تو کھلے عام اپنی حوس مٹانے کا موقع مل گیا اور سب نے بہتی گنگا میں ہاتھ خوب صاف کیے.ان چار سو میں سے کسی کو خیال نہ آیا کہ یہ پاکستان کی بیٹی ہے اسلام کی بیٹی ہے، جہاں یہ کہا جاتا ہے کہ بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں.


آپ کسی بھی ذات چاہے وہ مرد ہو یا عورت اس کے ماضی کو وجہ بنا کر اسے برا نہیں کہہ سکتے کیا پتہ وہ وہاں نہ رہتا ہو.
میرے نزدیک ان واقعات کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں.
موبائل کا حد سے زیادہ استعمال، سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال اور خصوصاً چھوٹے بچوں کی وقت سے پہلے موبائل سے وابستگی..
1.کھیل کے میدانوں کی کمی کی وجہ سے کھیل کی ایکٹیوٹیز کا نہ ہونا ہے.


2.  نوجوانوں کے لیے روزگار کی سہولیات کا نہ ہونا جس کی وجہ سے وہ اپنا بہت سا وقت فضول ایکٹیوٹیز میں ضائع کر دیتے ہیں جس میں موبائل کا استعمال سرفہرست ہے.
3. والدین کا اپنے بچوں کی تربیت پہ توجہ نہ دینا کیونکہ وہ خود انٹرنیٹ کی دنیا میں اتنے مگن ہوتے ہیں انہیں بچوں کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ کون کہاں اور کیا کررہا ہے. اور بچوں کو جب والدین وقت نہیں دیتے تو وہ فضول کاموں میں لگ جاتے ہیں اور اپنی زندگیاں تباہ کرلیتے ہیں.


4. ٹک ٹوک جیسی جتنی بھی ایپس ہیں جنہوں نے ہمارے معاشرے کے رنگ روپ کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے، جہاں حوا کی بیٹی ناچ ناچ کر اپنی زیب و زینت غیر مردوں کو دکھا رہی ہے وہاں امن کیسے ہوسکتا ہے، وہاں ایسی خرافات ہی جنم لیتی ہیں جو معاشرے کی خوبصورتی کو داغ دار کر دیا کرتی ہیں.
5.  سب سے اہم بات کہ الله پاک کے دین سے دوری، پیارے نبی کریم صلی الله عليه وآله وسلم کی تعلیمات پہ عمل نہ ہونااور قرآن پاک کو بھلا دیا جائے وہاں معاشرے کا بگاڑ اس کی قسمت میں لکھ دیا جاتا ہے اور یہ بگاڑ سالوں نسلوں تک سرایت کرجاتاہے.


اس کے علاوہ سب سے زیادہ ضروری قانون کی بالادستی کا ہونا ہے. بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بہت عرصے سے لاقانونیت نے زور پکڑ رکھا ہے جس کی وجہ سے یہ واقعات آۓ روز منہ اٹھاۓ نظر آتے ہیں اور عدالتیں تو جیسے ابدی نیند سو رہی ہیں.
حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسی پالیسیاں بناۓ جس سے ان بھیڑیوں اور درندوں کوعبرتناک سزا دی جائے، لوگوں کے دلوں میں قانون کا ڈر اور خوف ہو تاکہ کوئی دوسرا اس طرح کی حرکت کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے کیونکہ ہمارے معاشرے میں ایسی کئی عائشہ آۓ روز ان کی درندگی کا نشانہ بنتی ہیں اور بےدردی سے قتل کردی جاتی ہیں،صرف اس لئیے کہ انہیں پتہ ہے عدالتیں ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں اس لیے کہ ہمارے معاشرے میں قانون سرے سے ہے ہی نہیں جو ہے اس کا لوگوں کو ڈر نہیں ہے.


میری دعا ہے کہ الله پاک سب بہنوں، بیٹیوں اور ماؤں کی عزت اور آبرو کی حفاظت فرمائے آمین ثم آمین…

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :