ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد

جمعہ 22 اکتوبر 2021

Najam Ul Hassan

نجم الحسن

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
فیض نے یہ شعر 1974 میں ڈھاکہ سے واپسی پر لکھا لیکن مجھے یہ شعر امریکہ کی نائب سیکریٹری خارجہ وینڈی شرمن کی پاکستان سے واپس جانے کے بعد رہ رہ کر یاد آ رہا ہے۔ ملک کے حالات حاضرہ پر تو بہت سی دیگر خبریں چھائی ہوئی ہیں لیکن میرا ذہن پاک امریکہ تعلقات کی گتھیوں میں الجھا ہوا ہے۔

پاکستان ترقی پذیر ملک ہے اس کے باوجود امریکہ کے معاملے میں ہم نے اپنی بساط سے بڑھ کر ساتھ دیا لیکن سپر پاور کو آج تک خوش نہیں کر سکے۔
اب حال ہی میں ہونے والے امریکی نائب سیکریٹری خارجہ کے دو روزہ دورے کو دیکھیں تو آئندہ کا پاک امریکہ تعلقات کا منظر نامہ بڑا واضح ہو جاتا ہے۔

(جاری ہے)


امریکی وفد نے دورہ پاکستان کا اعلان کیا تو ساتھ ہی فرمائشوں کا راگ الاپنا شروع کر دیا۔

انداز نیا لیکن مطالبہ وہی پرانا کہ "ڈو مور"۔ وینڈی شرمن کی سربراہی میں 7 رکنی امریکی وفد بھارت سے ہوتا ہوا پاکستان پہنچا اور پہنچنے سے پہلے بھارت کی زمین پر ان تمام امیدوں کا گلا گھونٹ دیا جن میں پاکستان امریکہ تعلقات کے ایک نئے دور کے آغاز کی توقع کی جا رہی تھی۔
وینڈی شرمن نے ممبئی میں آننتا ایسپن سینٹر میں  ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دورہ پاکستان بہت مخصوص اور محدود مقصد کے لیے ہے۔

ہمیں ایسا نظر نہیں آ رہا کہ ہم فی الوقت پاکستان سے وسیع البنیاد تعلقات قائم کریں، اور نہ ہی ہم بھارت اور پاکستان کو ایک ساتھ ملا کر دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہم ابھی نہ اس مقام پر ہیں، اور نہ ہی ہم اس طرف جا رہے ہیں۔
پاکستان کے ازلی دشمن اور امریکیوں کے نئے دوست بھارت کے اہم شہر میں امریکی نائب سیکریٹری خارجہ کی جانب سے دورہ پاکستان کے مقاصد کو اتنے سخت لہجے میں بیان کرنا امریکی پالیسی سازوں کا پاکستان کی جانب رویہ واضح کرتا ہے۔

اس سب کے باجود حکومت پاکستان نے امریکی وفد کو ائیرپورٹ پر خصوصی پرٹوکول دیا۔ کرونا ٹیسٹ اور سیکیورٹی چیک کے بغیر وی آئی پی لاؤنج سے ویلکم کیا۔
پاکستان آمد کے بعد امریکی وفد نے اہم ملاقاتیں کیں جن کا محور افغانستان کی تازہ صورتحال تھی۔ جی وہی افغانستان جہاں امریکہ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اس شکست کا ملبہ امریکہ نے پاکستان پر ڈال کر اپنے دامن پر لگے ہار کے داغ چھپانے کی کوشش کی۔


جیسا کہ میں نے پہلے بھی لکھا کہ امریکہ کے معاملے میں پاکستان نے اپنی بساط سے بڑھ کر کردار ادا کیا۔ چاہے دہشتگردی کے خلاف جنگ ہو یا افغانستان سے بھاگتے امریکی فوجیوں کو باحفاظت وطن واپس پہنچانے کا مشن ہو۔ اس سب کے باجوود امریکہ نے پاکستان کے اقدامات اور کردار کی خاص پزیرائی نہیں کی۔
پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں لیکن اس سب کے باوجود پاکستان امریکہ کے ساتھ خراب تعلقات کا متحمل نہیں ہو سکتا لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم قومی غیرت اور خودداری کو قربان کر دیں۔

ایک اصول بڑا واضح ہے کہ بین الاقوامی تعلقات دوستی اور جذبات سے زیادہ مفادات پر مبنی ہوتے ہیں۔ امریکہ ہمیشہ سے اسی اصول پر کاربند ہے، سپرپاور اپنے مفادات دیکھ کر دوستی اور دشمن بناتی ہے۔ پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات اسی اصول پر قائم ہیں، جب ہماری ضرورت ہو تو امریکی دوست بن جاتے ہیں اور جب مطلب نکل جائے تو ناپوری ہونے والی خواہشات کی پٹاری کھول کر تعلقات کی سرد مہری کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ امریکی اصول پر ہی امریکہ سے بات کی جائے اور تعلقات کو دوطرفہ مفادات کو مدنظر رکھ کر استوار کیا جائے۔ اگر اتنی مداراتوں کے بعد بھی آج تک ہم اجنبی ہیں تو پھر آئندہ بھی رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :