غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں

پیر 13 دسمبر 2021

Najam Ul Hassan

نجم الحسن

غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
لا الہ الا اللہ انسان کو غیرت دیتا ہے اور غیرت کے بغیر نہ کوئی انسان بڑے کام کرتا ہے اور نہ قومی غیرت کے بغیر آج تک کوئی ملک اٹھا ہے۔ یہ وہ تاریخی الفاظ ہیں جو وزیراعظم عمران خان نے جون 2021 میں  قومی  اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے ادا کیے تھے۔


“Absolutely Not” کے بعد اب امریکی صدر بائیڈن کی ڈیموکریسی سمٹ میں شمولیت سے معذرت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ پاکستان نے خارجہ محاذ پر اپنی درست سمت کا تعین کر لیا ہے۔ مشکل ترین عالمی حالات میں پاکستان کا خالص پاکستانی مؤقف قومی غیرت کا عکاس ہے۔
ریاست پاکستان کے اس فیصلے کو لے کر اس وقت ملک میں دو School Of Thought ہیں۔

(جاری ہے)

ایک گروہ اس فیصلے کو تاریخ ساز، قومی غیرت کا عکاس اور خودمختار خارجہ پالیسی کا آغاز قرار دے رہا ہے تو دوسرا گروہ خدشات میں گرا ہوا ہے۔

دونوں گروہ شاید اپنی جگہ درست ہوں لیکن تاریخ کا طالبعلم ہونے کے ناطے میں یہ بھی جانتا ہوں کہ قومیں جب اپنے تشخص اور وقار کی جنگ لڑتی ہیں تو انہیں مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مشکلات کو جواز بنا کر قومی غیرت کا سودا کرنا دانشمندی نہیں کہلاتا۔ بطور قوم ہمیں بھی اس سفر پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن ہم نے اس مشکل وقت کی تیاری کرنی ہے۔

میرے پاس اس کا بڑا آسان 5 نکاتی فارمولا ہے جس کا ذکر آگے چل کر ہوگا۔ سب سے پہلے دفتر خارجہ کے اس تاریخ ساز بیان پر بات کریں گے جس نے پاکستان کی مسقبل کی خارجہ پالیسی کو دوٹوک انداز میں بیان کر دیا ہے۔
حال ہی میں امریکی صدر جوبائیڈن نے جمہوریت پر ایک اعلیٰ سطح کا ورچوئل اجلاس منعقد کیا، دو روزہ (9-10 دسمبر) اجلاس میں دنیا بھر سے رہنما، سول سوسائٹی کے ممبران اور پرائیویٹ سیکٹر کے ارکان مدعو تھے۔

امریکہ کی جانب سے اس اجلاس کا مقصد دنیا بھر میں جمہوریت کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی بنانا بتایا گیا جبکہ دنیا بھر کے سیاسی ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ اس اجلاس کے پس پردہ مقاصد چین اور روس کے خلاف محاذ تیار کرنا ہیں۔ بعض ماہرین نے جوبائیڈن کی ڈیموکریسی سمٹ کو سیاسی ہتھیار قرار دیا اور کہا کہ امریکہ دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی جانب لے کر جا رہا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ اپنی نام نہاد جمہوریت کو دنیا پر مسلط کر کے دنیا کو اپنی آمریت کے سائے میں لانے کے لیے کوشاں ہے۔
امریکہ نے ڈیموکریسی سمٹ میں شمولیت کے لیے پاکستان کو بھی دعوت نامہ بھیجا تھا۔ تاہم پاکستان نے اس اجلاس میں شرکت سے معذرت کر لی۔ پاکستان کے دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ ہم امریکہ کی جانب سے اس سربراہ اجلاس میں شرکت کی دعوت پر شکر گزار ہیں۔

پاکستان ایک بڑی اور فعال جمہوریت ہے جہاں عدلیہ آزاد ہے، سول سوسائٹی متحرک ہے اور میڈیا آزاد ہے۔ ہم جمہوریت کی مزید مضبوطی، بدعنوانی سے جنگ، تمام شہریوں کے انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے پر عزم ہیں۔ پاکستان نے حالیہ برسوں میں ان مقاصد کے حصول کے لیے وسیع تر اصلاحات متعارف کرائی ہیں اور ان اصلاحات کے مثبت نتائچ سامنے آئے ہیں۔

پاکستان امریکہ کے ساتھ شراکت داری کو بہت اہمیت دیتا ہے اور دو طرفہ تعلقات کے ساتھ ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی معاملات پر تعاون میں بھی فروغ کا خواہش مند ہے۔ ہم امریکہ کے ساتھ کئی مسائل پر رابطے میں ہیں اور ہمارا ماننا ہے کہ ہم اس موضوع پر مستقبل میں کسی مناسب وقت پر بات کریں گے۔
یہ وہ تاریخ ساز بیان ہے جس نے پاکستان کی خودمختار خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی اور دنیا پر واضح کر دیا کہ پاکستان سپر پاور کو بار بار  “Absolutely Not” کہنے کی بھرپور قوت رکھتا ہے۔

پاکستان کے اس بیان کے بعد چین بھی میدان میں آیا اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر چین کی وزارت خارجہ کے محکمہ اطلاعات کے ترجمان لیجیان ژاؤ نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے جمہوریت سربراہی اجلاس میں شرکت سے انکار کر کے چین کا حقیقی بھائی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔
امریکی صحافی پیٹسی ودا کسوارا کے مطابق پاکستان کے اس انکار پر وہائٹ ہاؤس نے کہا کہ ہم کانفرنس میں شرکت کرنے اور نہ شرکت کرنے والے ملکوں سے جمہوریت کو مضبوط کرنے، انسانی حقوق کے احترام کو فروغ دینے اور بدعنوانی کے خاتمے پر بات چیت جاری رکھیں گے، چاہے وہ کانفرنس کے فریم ورک کے اندر ہو یا باہر۔


بظاہر تو وائٹ ہاؤس کا ردعمل بالکل سادہ سا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اس “Absolutely Not” کا بدلہ لینے  کے لیے کبھی IMF  اور کبھی FATF کا سہارا لے گا اور پاکستان کو معاشی طور پر کمزور کرنے کی کوشش کرے گا۔ اگر پاکستان نے فیصلہ کر لیا ہے کہ سر اٹھا کر جینا ہے تو پھر ان ممکنہ مشکلات سے نمٹنے کے لیے پرچم پاکستان کو مضبوط کرنا ہوگا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے کیا کرنا ہے؟ تو فارمولا بہت آسان ہے لیکن اس پر عملدرآمد مشکل ضرور لیکن ناممکن نہیں ہے۔
1.احتساب سے بالاتر اشرافیہ کو ذاتی مفادات کے لیے ریاستی پالیسی کو یرغمال بنانے سے روکا جائے
2. پاکستان میں بسنے والے ہر طبقے کا احترام کرتے ہوئے ریاستی امور میں منصفانہ حصہ دیا جائے
3. پبلک سیکٹر کو پاؤں پر کھڑا کر کے ڈورنے کے قابل بنایا جائے
4. ملکی دفاع کو سائنسی بنیادوں پر تگڑا کیا جائے
5. سی پیک کو مضبوط کر کے  ترقی کو راستہ دیا جائے
سبز پاسپورٹ کی عزت کا وقت آگیا ہے اور ایسا صرف آزاد خود مختار خارجہ پالیسی کے بدولت ہو گا۔

کیونکہ
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :