امریکی آمریت کا اقرار، جمہوریت کا نیا نام

ہفتہ 27 نومبر 2021

Najam Ul Hassan

نجم الحسن

الائنس آف ڈیموکریسیز فاؤنڈیشن نے 5 مئی 2021 کو ایک سروئے رپورٹ جاری کی جس کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے 53 ممالک کے عوام کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ امریکہ جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اب آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ وہی امریکہ جس کو دنیا بھر کے لوگ جمہوریت کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں، ڈیموکریسی سمٹ 2021 کا انعقاد کرنے جا رہا ہے۔

امریکہ سمیت دنیا بھر کے جمہوریت پسند امریکی سمٹ کو جمہوریت کے فروغ سے زیادہ ایک ایسے ہتھیار کے طور پر دیکھ رہے ہیں جو بائیڈن انتظامیہ اپنے بھروسہ مند اتحادیوں کے ہمراہ اپنے مخالف ممالک کے اثرورسوخ کو کم کرنے کے لیے استعمال کرنے جا رہا ہے۔ بائیڈن کے جمہوری سمٹ میں مدعو ممالک کی فہرست، مجوزہ مقاصد اور پس پشت عزائم سب اس وقت عالمی سطح پر ایک گرم خبر ہیں۔

(جاری ہے)


ڈیموکریسی سمٹ 2021 اور اس کے مقاصد
 واضح رہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنی انتخابی مہم میں ڈیموکریسی سمٹ کا وعدہ کیا تھا اور اس وعدے کو عملی جامع پہنانے کے لیے انہوں نے 9، 10 دسمبر 2021 کو سمٹ کا اعلان کیا ہے، جس کے لیے 100 کے قریب ممالک کو دعوت نامے بھیجے جا چکے ہیں۔ ڈیموکریسی سمٹ 2021 کے مقاصد میں آمریت کی روک تھام، کرپشن کے خاتمہ اور انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی  بنانے پر لائحہ عمل تیار کرنا شامل ہیں۔


ڈیموکریسی سمٹ کے پس پردہ مقاصد
دنیا کے مبصرین کا ماننا ہے کہ بائیڈن کی یہ سمٹ اوپر بیان کیے گے مقاصد سے بڑھ کر ہے۔ اصل میں یہ ڈیموکریسی سمٹ چین اور روس کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو کم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ بظاہر تو سمٹ جمہوریت کے فروغ کے لیے ہے لیکن مدعو کیے گئے ممالک میں سے زیادہ تر وہ ممالک ہیں جو امریکہ کے قریبی اتحادی ہیں۔

سمٹ کے دعوت نامے اس اصول پر نہیں دیے گے کہ کون سا ملک جمہوری ہے اور کون سا نہیں، بلکہ معیار یہ ہے کہ کون سا ملک امریکہ کے ساتھ ہے اور کون سا ساتھ نہیں ہے۔ اصل میں امریکی آمریت کا اقرار بائیڈن انتظامیہ کے قریب "جمہوریت" ہے۔ اس لیے وہ تمام ممالک ’’جمہوری ملک‘‘ کا لقب رکھتے ہیں جو امریکہ کے اتحادی ہیں۔ وہ ملک جو امریکہ کوabsolutely not  کہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ جمہوری ہونے کے باوجود بائیڈن کی ڈیموکریسی سمٹ میں بلائے جانے کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔


اس کے برعکس اس سمٹ میں بائیڈن انتظامیہ نے بہت سے ایسے ممالک کو مدعو کیا ہے جہاں جمہوریت بری طرح سے پٹ چکی ہے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں، مذہبی آزادی صلب کی جاچکی ہے اور کرپشن عروج پر ہے۔ لیکن امریکہ کے قریب یہ ممالک "جمہوری" ہیں کیونکہ وہ دل و جان سے امریکی آمریت کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان ممالک میں مودی کا بھارت، فلپائن اور پولینڈ جیسے ممالک سرفہرست ہیں۔


پاکستان کے absolutely not کے بعد چین پر نظر رکھنے کے لیے بائیڈن انتظامیہ کی واحد امید بھارت ہے اور مودی سرکار اس امید پر پورا بھی اتر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی تجویز کے باوجود بائیڈن انتظامیہ نے بھارت کو مذہبی آزادی کے حوالے سے تشویش زدہ ممالک کی فہرست میں شامل نہیں کیا۔
یاد رہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے کہا تھا کہ انسانی حقوق اس کی خارجہ پالیسی میں مرکزی حیثیت رکھیں گے، لیکن بھارت پر جاری نوازشات اس بات کا ثبوت ہیں کہ امریکہ کی جانب سے اس ترجیح کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے۔

امریکہ کی اس سلیکٹیو پالیسی پر انڈین امریکن مسلم کونسل نے انڈیا کو سی پی سی کی فہرست میں شامل نہ کرنے پر امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلنکن کو تنقید کا نشانہ بنایا اور انڈیا کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کی فہرست سے خارج کرنے کے فیصلے کی مذمت کی۔
انڈین امریکن مسلم کونسل نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ یہ افسوسناک ہے کہ بائیڈن انتظامیہ انڈیا میں مذہبی آزادی پر بڑے پیمانے پر حملوں کے بارے میں خاموش ہے۔

بائیڈن انتظامیہ نریندر مودی حکومت کو انڈیا میں مذہبی اقلیتوں پر حملہ کرنے کی ترغیب دے رہی ہے۔
یہ سب ثبوت بائیڈن انتظامیہ کے اس دعوے کا پول کھولنے کے لیے کافی ہیں کہ ڈیموکریسی سمٹ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے اور جمہوریت کے فروغ کے لیے ہیں جبکہ اس سمٹ میں ایسے ممالک کو بلایا جا رہا ہے جہاں جمہوریت بدترین حالات سے دوچار اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عروج پر ہیں۔


پاکستان کو ڈیموکریسی سمٹ میں کیوں نہیں بلایا گیا؟
یہ سوال سب سے اہم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اب تک آپ کو اس سوال کا جواب مل چکا ہوگا۔ پاکستان کو ڈیموکریسی سمٹ 2021 میں دعوت نہ دینے کی پہلی وجہ حکومت پاکستان کا امریکی آمریت تسلیم کرنے سے انکار ہے اور یہ انکار ہی پاکستان کو امریکہ کی "جمہوری ممالک" کی فہرست سے نکالنے کے لیے کافی ہے۔

عمران خان کا absolutely not بھی بائیڈن انتظامیہ کو آج تک ہضم نہیں ہو رہا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو ڈیموکریسی سمٹ 2021 میں مدعو نہیں کیا گیا اور عالمی سطح پر یہ پراپگنڈا کیا جا رہا ہے کہ پاکستان این جی اوز کے خلاف اقدامات اٹھا رہا ہے۔
یاد رہے کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے دور میں پاکستان میں موجود کچھ این جی اوز کے خلاف ایکشن لے کر ان پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

یہ این جی اوز پاکستان میں ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث تھیں اور اس کے واضح ثبوت بھی موجود تھے۔ جن این جی اوز پر پابندی عائد کی گئی ان میں سے ایک پر امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے لیے کام کرنے کے واضح ثبوت ملے تھے۔ اب ایک بار پھر سے ایسی این جی اوز اپنے نئے ناموں کے ساتھ پاکستان میں ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے لیے کام کر رہی ہیں۔

عمران خان حکومت نے بھی ایسی این جی اوز کے خلاف سخت ایکشن لینے کا اعلان کیا ہے اور متعلقہ اداروں کو ان کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی ہے۔ یہی وہ معاملہ ہے جو امریکہ کو ہضم نہیں ہو رہا۔ وہ امریکہ جسے دنیا کے لوگ جمہوریت کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں وہ جمہوریت کا چئمپین بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ اپنی نام نہاد جمہوریت کو دنیا پر مسلط کر کے دنیا کو اپنی آمریت کے سائے میں لانے کے لیے کوشاں ہے اور absolutely not کہنے والے ممالک امریکہ کے لیے خطرہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے ممالک کے خلاف بھرپورپراپگنڈا مہم جاری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :