حریف نہیں حلیف!

منگل 30 مارچ 2021

Nazeem Khan Hunzai

نظیم خان ہنزائی

ہم اور ہمارے سمیت دنیا کے مختلف جگہوں کا  یہ عام رواج ہے کہ سال میں ایک ایسا دن ضرور مناتے ہے جو صرف اسی دن ہوش و حواس اور عاجزی سے گزر بسر کرتے ہیں تاہم پریشانی کی بات یہ ہے کہ دوبارہ ایک ساک مکمل ہنے تک اس طرح خاموش ہوجاتے ہے جیسے کسی غیبی طاقت اسلحے کی زور پر خاموش کرا رہی ہو۔ عین اسی تاریخ زنگ آلود جزبے ابھر آتے ہے۔

اس کی مثال ایسا ہے کہ کوئی نالائق بچہ سال بھر مطالعہ کے بجائے مکالمے میں گزارے اور امتحان کی گھڑی دن رات ایک کر کے محض امتحان پاس کرنے کی نیت سے پڑھ رہا ہو۔
گزشتہ کئی سالوں کی طرح اس سال بھی عورت مارچ  8 مارچ کو روایتی انداز میں منایا گیا۔ کئی لوگ پرانی بندوقوں کی مانند جس پر سالوں کی دھول جمی ہوئی ہو، صفائی ستھرائی کے بعد میدان جنگ میں اس انداز سے نکل آئے کہ دیکھنے والے اسلحہ سمجھ بیٹھے مگر  کس کو کیا پتہ کہ ہتھیار کو زنگ لگے بہت عرصہ ہوگیا جو  اپ گریڈ  یعنی بہتر بنانےکی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)


میں ماضی میں اکثر ایسے تقریبات جو صرف ایک گروہ  اپنی مفاد میں منعقد کرتی ہے سے دور رہتا آیا ہوں مگر دوستوں کے اصرار پر اس بار 8 مارچ بہ مقام فریئر ہال کراچی  جانے پر اکتفا کیا کیونکہ کسی بھی چیز کو ماشاہدے کے بنا رد یا ماننا جا سکتا ہے۔ مشاہدہ اور مطالعہ اس انداز سے کیا جائے کہ زات، نسل اور انفرادی تفرقات کے لیے کوئی گنجائش نہ رہے۔


حسب روایت مختص مقام پر دوستوں کے ہمراہ براجمان ہوئے جہاں لوگ جمع تھے مگر حالات بتا رہے تھے کہ ہم غلط جگہ پہنچ گئے ہیں کیونکہ ہمارے مطابق ایک مظلوم طبقے کا موجود ہونا تھا مگر وہاں ایسے لوگ جمع تھے جو گھر کی دہلیز سے کمرے تک رولس رائس(Rolls Royce )، مرسڈیز اور بی-ایم-ڈبلیو خا سہارہ لیتے ہیں، دور دور تک کوئی اس احتجاج کا اصل حقدار موجود نہیں تھا اور نہ اشرافیہ طبقہ حقداروں کو اکھٹا کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔

بہرحال گزارہ کر کے 8 مارچ کا سورج غروب آفتاب ہوا اور اب قیامت سی خاموشی ہے۔
ہمارے زندگی کے معاملات ہو یا کوئی دوسری صورت حال، وقت آنے سے پہلے اور بعد کے لمحے سمجھنے کی لحاظ سے قابل غور ہوتے ہے اور عورت مارچ ہمارے لیے تا قیامت تک ایک زندہ مثال ہے جس سے ہم یہ ضرور سمجھ سکتے ہیں کہ نفرت انگیز اور انتشار کے نعروں سے باہر آکر سنجیدہ اور کاغزی کاروائی پر دھیان دینا اصل عورت کی خودمختاری ہے۔

قانونی عمل کے ذریعے شعوری ذہنوں کو یکجا کیا جاسکتا ہے تاکہ موثر طریقے سے انسان دوست اور قابل قبول اصولیات کے طفیل معاملے کو زندہ رکھ سکے۔
جہاں نیک نیتی اور عملی ذہنوں کی ضرورت ہے وہاں معاشرتی اقدار اور علم و ادب سے تعلق رکھنے واکوں کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ہم ذاتیات میں بٹے لوگوں میں شامل ہے اور اخلاقی پستیوں کا شکار ہے۔ ہمیں بہت زیادہ علم کے مقابلے میں تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔

بظاہر یہ جنگ مرد اور عورت کی نہیں بلکہ اس تضاد کے پیچھے ہماری کمزور ذہن اور بری عادتیں موجود ہے۔
معاشرے کے ستونوں میں سے دو ستون جس کو مرد اوف عورت کہا گیا ہے، اگر وہ ایک چھوٹا، بڑا ہو تو کیسے معاشرے کا قیام ممکن ہے؟ مرد دنیا میں دو بار یتیم ہوتا ہے ایک بار جب اس کی ماں فوت ہوتی ہے اور دوسری بار اس وقت جب اس کے بچوں کی ماں فوت ہوتی ہے۔

ان تلخ حقائق کے باوجود مرد پھر بھی حقوق دینے سے قاصر ہے تو وہ مرد کہلانے کے لائق نہیں اور اسی بنا پر سارے مرد زات کو مورد الزام ٹھرانا کم عقلی ہے۔ اس سچ سے کوئی آنکھیں نہیں چرا سکتا کہ ہمارے اردگرد حقوق پامال کر دیئے جاتے ہیں۔ حقوق کا سلب ہونا ایک ایسا عمل ہے جسکا براہ راست اثر ہماری کوششوں پر ہے۔ اب ہمارا فرض  بنتا ہے کہ مظلوم کی آواز بنے، محض مخصوص دن فقرے بازی اور جلاو گھراو سے نہیں۔


نوع انسان جب اخلاقی دائرے سے باہر آتے ہیں تو ہمارے لیے دین ایک مکمل تحفظ دیتی ہے۔ حق کے چوروں کو تنبیہ کی گئی ہے اور مرد و زن میں واضع صفائی دی گئی ہے۔ ایک امن پسند دین کے پیروکاروں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ مخلوق کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنے اور اپنے سے کمتر اور کمزوروں کو دیوار سے لگائے رکھے لیکن اگر پھر بھی اس جیسے غیر اخلاقی کاموں کا کوئی مرتکب بنے تو یہ اللہ اور بندے کے درمیان کا معاملہ ہے۔


مزہبی ریاست کی خوبصورتی یہی ہے کہ لوگ خاندانی زندگی میں پہچان کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ آپس میں مٹھاس اور عزت کے رشتے موجود ہے جن میں ماں، باپ، بھائی، بہن، خاوند، بیوی  وغیرہ شامل ہے۔  ایک نئی تحقیق کے مطابق مغربی ممالک میں عورتیں خاندانی زندگی کی طرف مائل ہونے لگی ہے۔ خبر رساں اداروں کے مطابق معاشرتی دباو اور بے نام رشتوں کے درمیان پسی ہوئی عورتیں ہمارے ہی بنائے گئے اصل رشتوں کے حامی ہو گئی ہے مگر پستی کی انتہا دیکھے ہم انہی اقدار کو بالائے طاق رکھے ہوئے حالت جنگ سے دوچار ہے۔

ایک قصہ مشہور ہے کہ مغرب میں ایک بڑھی عورت نے بیٹے کے خلاف مقدمہ چلائی کہ بچپن میں بیٹے کو پالا پوسا پر آج میں جب بڑھی ہوگئی ہوں تو بیٹے نے کتا پال رکھا ہے۔ وہ اسے کھلاتا، پلاتا ہے اور اور پیار کرتا ہے لہذا قانون کے تحت میرے بیٹے کو مجبور کیا جائے کی دن میں کچھ وقت میرے کمرے میں بھی آجائے۔ جج نے دو ٹوک الفاظ  میں واضع کیا کہ قانون کے مطابق کسی جانور کا دیکھ بال فرض ہے اور ریاست نے بزرگوں کے لیے اولڈ ہاوسز کا انتظام کیا ہے اگر آپ چاہتی ہے تو آپکو وہاں منتقل کیا جائے گا۔

پس یہاں خونی رشتے ہار گئے اور ماں جیسی ہستی کے مقابلے کتے جیت گئے۔
دنیا میں کچھ باتیں، طریقے اور روایات جامد ہے جن میں رد و بدل فساد اور بے ادبی کے علاوہ کچھ نہیں۔ حقوق ہو یا ذمہ داریاں سبھی طے ہے۔ اصل بات یا مسئلہ مساوات کا ہے نہیں، اصل بات یکسانیت کا ہے۔ مرد عورت میں جان بوجھ  کر مقابلہ پیدا کیا جا رہا ہے اور ان سب کے پیچھے خصوصی غیبی ہاتھ کار فرما ہے ورنہ گنے چنے لوگ اچانک ابھر کر معاشرتی اقدار کو چیلنج نہیں کیا کرتے۔

ان اوچھے ہتھکنڈوں کی مدد سے گھر گھر سے، محلہ محلے سے لڑ پڑے گا اور یاد رکھنا چاہئے کہ کشتیاں باہر کی پانی سے نہیں اندر کی پانی سے ڈوبتی ہیں اور گھر بھی۔ قرآن و سنت کی روشنی میں مرد عورت دونوں کو چاہئے کہ ایک دوسرے کا پردہ پوشی کریں اور بے حیائی سے باز آجائے۔ ہمیں اپنی نیتیں سدھارنے کی ضرورت ہے چاہے انفرادی ہو یا مجموعی کیونکہ اگر نیتوں کا اثر چہروں پر نظر آنے لگتا تو معاشرے کا ہر فرد نقاب کرنے پر مجبور ہوجاتا۔


 دینی تعلیمات سے کنارہ کشی کے بجائے اصلاحی معنوں میں ان کو سمجھے کیونکہ یہی قرآن اور اللہ کے احکامات ہمیں شناخت اور تحفظ فراہم کرتے ہے۔  جس کتاب کی ابتدا ہی الحمداللہ سے ہوتی ہے اس پر ایمان لانے والے نا شکر اور نا امید کیسے ہوسکتے ہے۔ وہ دین کسی کو کیا نقصان پہنچائے گا جس میں راستے سے پتھر ہٹانے پر بھی ثواب ملتا ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :