فرضی دین (HYPOTHETICAL RELIGION)

اتوار 21 فروری 2021

Nazeem Khan Hunzai

نظیم خان ہنزائی

" اسلام کی تعلیم سے بیزار ہوئے تم
ہم کو تو گلہ تم سے ہے، یورپ سے نہیں ہے"
دین اور دینی تعلیمات پر بحث کرنا ایک حساس موضوع ہے اس لیے کوئی پیچیدہ بات کہنا مناسب نہیں اور نہ ہم عام لوگوں کو اس پر دسترس حاصل ہے مگر یہ ہرگز نہیں مطلب کہ انسانی شعور سے بھی ہم محروم ہوں۔ اس عام بات کو آپ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔


عجیب منطق ہے کہ مسلمان اکثر دین کو استعمال کرتے ہیں۔ اپنے لیے اپنے حساب سے  ضرورت کے مطابق دین کی تشریع کرتے ہیں۔ مرد نامحرم ہو نہ ہو عورت پر کڑی نظر رکھا گیا  ہے۔
کبھی میں نے یہ نہیں سُنا ہے کہ کسی کے ساتھ بدسلوکی مت کرو سنت ہے، خلق خدا کی خدمت کرو سنت ہے، جھوٹ مت بولو سنت ہے، وعدہ نبھاو سنت ہے، وغیرہ وغیرہ۔

(جاری ہے)

جبکہ یہ بات زبان زد خاص و عام ہے کہ داڑھی رکھو سُنت ہے۔

جہاں عورت  لباس کا خیال نہ رکھے اُس کو برا بلا کہا جاتا ہے، مرد زات کا سامنا کرنے نہیں دیتے جبکہ ہم یہ نہیں جانتے کہ ہر ہسپتال میں پوسٹ مارٹم جیسے حساس کام مرد انجام دیتے ہے۔  مُستند معلومات کے مطابق بیشتر ہسپتال میں دوران حمل مرد ہی ڈاکٹر ہوتے جو علاج کرتے ہیں۔
 کیا آپ نہیں جانتے کہ دکان، بڑے بڑے ہوٹلز اور بینکوں کے استقبالیہ کمرہ یا میز جہاں سے گاہک کے معاملے حل کرتے ہیں وہاں کِسے اور کیوں رکھتے ہے؟ یہ سوال خود کو جھنجھوڑ کر خود سے ہی کیوں نہیں پوچھتے کہ ہر وہ پوسٹر جو نمائش کے لیے آویزاں ہے تاکہ گاہک بڑھے اور کاروبار چلے ان سب میں اور تمام ٹی وی اشتہارات میں عورت کو نمایاں کرنا  كسی خاص ایجنڈے كے تحت کیوں جائز ہے,جس جگه آپ كی ذہنی سفاكیت صاف عیاں ہے؟ ایك ذات سے كاروبار، نفع, نقصان منسوب كیوں ہے؟  ٹیلیویژن چینل کی ریٹنگ بڑھانے کے لئے ایک خاص طبقے کو خصوصی استعمال کیوں کیا جاتا ہے؟ کیا آپ کو ضمیر ملامت نہیں کرتا کہ جائز کو ناجائز اور ناجائز کو جائز سمجھے؟ کیوں دین اور مقصدِ دن کو ستّر حُوروں تک محدود رکھا ہے؟  آپ کے نزدیک حصولِ جنت دین کا مکمل پیغام كیوں ہے؟ ایک مکمل دین میں رہ کر بھی دہراپن کا شکار کیوں ہے؟ یہ بہت سوالوں میں سے چند سوالات ہیں جنہیں ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے کیونکہ میرا اور آپ کا اصل دین وہ ہے جو اللہ کی طرف سے آخری رسول و نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زریعے ہم تک پہنچا مگر ہم مسلمان دین کو ضرورت کے مطابق استعمال کرتے آئے ہیں۔

دین کے ساتھ کھیلنا مناسب نہیں ، وقت کا تقاضا یہی ہے ، وقت کی پکار بھی یہی ہے کہ ہمیں مکمل عمل پیرا ہونا ہوگا کیونکہ اسی میں رب راضی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :