ماں! میری پیاری ماں

منگل 18 مئی 2021

Nazeem Khan Hunzai

نظیم خان ہنزائی

ہر طرف ماوں کا عالمی دن اور میں چُپ چاپ کھڑا محبت بھرے پیغامات سنتا، پڑھتا گھر کے کسی کونے میں بیٹھا رہا۔ میری مّاں بہت اچھی اور نیک ہے جیسے سب پیار کرتے میں بھی دِل و جان چھڑکتا ہوں۔ میری دُعا ہوتی ہے کہ کوئی غلط نظر تک نہ دوڑائے کیونکہ میری ماں ہے بھلا ماں سے زیادہ کون پیارا ہے؟
میں ماں سے ہر دن اتنا پیار کرتا ہوں جتنا ہر کوئی کسی خاص دن پیار کرتا ہے۔

میں ہمیشہ پیار بھرے پیغام، تحفّے اور ساتھ سیر کرنے جایا کرتا تھا تاکہ میری ماں مجھ سے خوش ہو۔ میرے ہونے سے میری ماں کو سکون ملیں۔مگر اب اس ماوں کے خاص دن سے جی گھبراتا ہے۔۔ میری رُوح کانپتی ہے کہ کاش اس دن صبح ہی نہ ہو۔ ہر کوئی جسے پتہ ہو نہ ہو مجھ سے اصرار کرتا ہیں کہ ایک پیغام ماں کے لیے میں بھی لکھوں اور احساس دلاوں کہ میں بھی محبت امّی سے بہت کرتا ہوں اور حقیقتاََََ میں بہت پیار کرتا ہوں۔

(جاری ہے)

میرے دوست ٹھیک کہتے ہیں اور میں کیوں نہ کروں اظہارِ مُحبت؟ لیکن میں اس معاشرے کو پہلے تیزاب سے غُسل دینا چاہتا ہوں کیونکہ اس بیمار مجمعے کے ہوتے ہوئے میری ماں شرم محسوس کر رہی۔ لوگ غلط غلط القابات سے پکارتے۔ شہوت بھرے نظروں سے سر تا پاوں چھلنی کر دیتے ہے۔ میری ماں درندگی سے بچ نکلی ہوئی  ایک مظبوط عورت ہے۔ کالے بھیڑیوں سے بچ نکلنا کتنا مشکل ہوتا ہے پتہ ہے نا؟  بس! یہی لوگ ہی تھے جنہوں نے میری مّاں کو نشانہ بنایا، نوچا گیا اور زیادتی کے بعد اس لمحے کو اپنے موبائل اور کیمروں میں محفوظ کیا کیونک وہ باغی اور پاگل کتے تھے جن کا دل بھرا نہیں اور اس مکرو نیت سے کہ اگلی بار پھر مجبور کر سکیں تصویر بنائے۔

میں چھوٹا تھا پھر بھی بہت چیخا۔ آخر میں کیا کرتا بہت چھوٹا تھا۔ یہ سوچ کر کہ کاش کوئی آواز سنیں، چیختے چیختے گلہ بیٹھ گیا۔ ان کو شک ہوا کہ کہی آس پاس کوئی آواز سن نہ لے اس لیے میرے ساتھ بھی ناروا سلوک کیا اور یوں میں اور میری ماں ایک دوسرے کی عِزت تار تار ہوتے ہوئے دیکھتے رہ گئے۔ عجیب اور غضب وہشت بھرے لوگ تھے اور میری ماں نہایت نازک اور پرہیزگار عورت تھی جو ہر قدم پھونک کر اس نِیت سے رکھتی تھی کہ گھر کی عزت پر کوئی آنچ نہ آئے لکین معاشرتی کتے، بھیڑیے اور زناکار جبرا" نگل پڑے۔

میری ماں پھر بھی اتنی ہی مضبوط ہے۔ مجھےاب بھی ہمت دیتی ہے۔ کہتی ہے کہ جن کا کوئی نہیں ہوتا ان کا خدّا ہوتا ہے۔ میں خوش ہوتا ہوں کیونکہ دیر صحیع مگر وہ لوگ پکڑ میں ضرور آئیں گے جب قیامت کے دن ان سے سوال ہوگا۔ ماں کہتی ہے کہ دنیا زنا خانہ ہے۔ جِنسی استحصال روکنے والے جسم کا سودا کرتے ہے پھر انصاف کی بات کرتے ہیں، انصاف کے دروازے کھٹکھٹانے سے پہلے عورت کو اپنے ہی گھر کے دروازے کھٹکتے ہوئے دیکھنا ہوتا ہے۔

سیکس کو حرام کہتے تو سب ہے مگر سبھی حرامی ہے۔ صبع ہوتے ہی پہلی نظر محلے کی بچیوں پر، آتے جاتے گاڑیوں میں، آفیسز میں، پارکس میں اور شام کے وقت مُحلے کی گلیوں میں عورتوں کے منتظر یہی حرام کہنے والے حرامی بیٹھک لگائے ہوتے ہیں۔
 مختصرا" یہ کہ میری ماں میرے لیے ماں ہی ہے لیکن دنیا والے انھیں ماں، بہن کی نظر سے دیکھتے نہیں۔  بدکار، فحش اور سستی عورت جیسے ناموں سے پکارتے ہے حالانکہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے جنونیت میں آکے میرے گھر کی عزت لوٹی۔

نہ صرف خود بلکہ دوسروں کے ساتھ تصاویر بانٹے اور اب تو سبھی پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔  ایسے لوگ کیسے اپنے گھر کو بند اور محفوظ سمجھ کر آتے ہیں  اور کیا جواز ہے کہ ان کے گھر کھلے نہیں ہونگے جیسے وہ ہمارے گھر اور چاردیواری کی تقدس پامال کر گئے؟ میری ماں کو چھوتے ہوئے، ہاتھ لگاتے ہوتے اور فحش حرکتیں کرتے ہوئے کیسے بھول گئے کہ خود اپنے گھر بھی ماں، بہن چھوڑ آئے ہے؟  دل ہی دل میں سوچتا ہوں کہ جسے ماں، بہن کا فکر ہو وہ کیوں کرے ایسی حرکت! خیر  بات سے بات نکل گئی لیکن اصل بات یہ ہے کہ میری ماں جیسی عورت کبھی آئی ہی نہیں اس دنیا میں اور میں بتانا چاہتا ہوں کہ محبت کے سارے پیمانے کم ہونگے اس حد تک میں ماں سے محبت کرتا ہوں، کوئی حد بندی نہیں لیکن ایک بار پھر یہ ڈر  مجھے مجبور کرتی ہے کہ کہی میری ماں پھر سے حرام نظروں میں نہ آئے اسی لیے میں دل ہی دل میں اور عملی طریقوں سے شکریہ ادا  کرتا ہوں اور تعبدار ہوں۔

سُرخ سلام ان باہمت ماوں کو جو ظلم کا نشانہ بنی اور سبھی پاک اور تازہ ماوں کو میرا سلام کیونکہ اس معاشرے میں عورت اگر خود کو محفوظ رکھ پائی تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ شیر کی منہ سے زندہ بچ نکلی۔ دعا ہے کہ دنیا سے جسم کی بُھوک مِٹ جائے اور سب خوشی سے اپنی ماوں کے سائے میں پلے بڑے ہو۔ آمین!
نوٹ:- اس کہانی کا مرکزی کردار عادل ہے جو کہ فرضی کردار ہے جس کے زریعے معاشرے میں رونما ہونے والے واقعات کی نشاندہی کی گئی ہے۔

یاد رکھیں ایسے واقعات آئے دن، ہر لمحہ رونما ہوتے ہے جوکہ منظر سے غائب ہوتے ہے یا کر دیے جاتے ہے جس کے پیچھے سیاسی کارندے اور طاقتور انسان نُما حیوان کا ہاتھ ہمیشہ رہا ہے۔ان تمام باتوں کے دوران سخت الفاظ کا چُناو وقتی حالات اور کرداروں کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ تحریر پڑھنے سے آپ کے سامنے کچھ کردار نمودار ہوجائے گے جنہیں میں اور آپ سب مل کر سُدھار سکتے ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :