موئن جودڑو‎

پیر 1 مارچ 2021

Nazeem Khan Hunzai

نظیم خان ہنزائی

سال 2019، 7 جولائی جمعے کا دن تھا- ہم دوستوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ وقت فراغت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم وادی سندھ  کے ان گلیوں میں گھوم پھر آئے جہاں سے نہ صرف دین اسلام كی ارتقاء ہوئی بلکہ بعد میں تمام ثقافتوں کا مرکز سمجھا جانے لگا۔ مختصر مگر پرسکون سفر کے بعد ہم قدیم بستی "موئن جو دڑو" پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جو کہ لاڑکانہ میں موجود ہے اور كراچی سے 6 گهنٹے دوری پر ہے۔


سبھی اہم باتوں کا بیان کرنا ممکن نہیں اس وجہ سے میں موٹی موٹی باتیں بتانا لازمی سمجھتا ہوں تاکہ آپکو ہماری تاریخ اور جدیدیت کا رشتہ تلاش کرنے میں مدد ملے۔
 620 ایکڑ پر محیط اس قدیم اثاثے کا خصوصی پہچان اسکی تاریخ ہے جو اب سے تقریبا 4500 سال پرانی ہے۔ محقیقین اس بات پر اتفاق کر چکے ہیں کہ لوگوں کا مجموعی تعداد 35000 سے زیادہ نہ تھی۔

(جاری ہے)

اس قدیم بستی میں وہ احساست اور طرظ تعمیری شامل ہے جو  میسوپوٹیمیا اور  مصری تہزیبوں کا مسکن رہی ہے۔ ایک ہندوستانی کتبہ نویس نے خیال کیا کہ موئن جو دڑو کا پرانا اور اصل نام کوکوترما  "Kukkutarma" جس کا لفظی معنی مرغی/مرغا  ہے جس سے اس بات کا آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پرانے وقتوں میں وہاں کے لوگ مرغیاں پالنے کو ترجیع دیتے ہونگے۔

انکا کہنا ہے کہ مرغوں کو لڑائی کے لیے پالنا ایک خاص روایت ہوا ہوگا جس سے یہ بات واضع ہوجاتی ہے کہ لوگ مزہبی تہوار یا عام مسرت کے دن مرغوں كو لڑا کر لطف اندوز ہوا کرتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ دنیا بھر کے لیے موئن جودڑو مرغیوں کو پالنے کی لحاظ سے ایک مرکز رہا ہوگا۔
اس تاریخی جگہ کو مختلف انداز سے سمجھا گیا ہے جس میں "مردوں کا ٹیلہ" بھی نمایاں ہے۔

انڈس سیولایزیشن کے باقیات 3700 سال تک دستاویزی ثبوت یا ریکارڑ کے بغیر رہے مگر بعد میں آثار قدیمہ کے علوم میں مہارت رکھنے والا ہندوستانی آفیسر آر-ڈی بینرجی نے 1919، 1920 میں یہ خیال کیا کہ یہ ایک مراقبہ کی جگہ کے طور پر استعمال ہوا ہوگا۔اس تاریخی و ثقافتی پہلو کی کھوج میں بےشمار کھدئیاں ہوئے جو 1919 سے لیکر 2015 تک جاری رہی۔ انسانی مشاہدات کو عمل میں لاتے ہوئے اکثریت اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ موئن جو دڑو نمایاں طور پر نفیس سول انجنیئرنگ اور شہری منصوبہ بندی پر مبنی ایک علٰی شاہکار ہے۔

شہر قیدیم میں وہ تمام طریقے موجود تھے جو آج کی ترقیاتی دور میں موجود ہے۔ شواہد کی مدد سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسكتا هے کہ مقامی سطح سے شہری سطح تک معاشرے میں ان کے سوچنے، تراکیب، اور طرز حکمرانی کا طریقہ اب کے طریقوں سے مماسلت رکھتا ہے۔ منظم انداز میں صاف گلیاں اور پورا شہر اس انداز سے بنایا گیا ہے کہ آج ترقی یافتہ ممالک میں شہر، گلیاں اور بڑے بڑے مہمان خانے اس طرظ سے بنائے گئے ہے۔

موئن جو دڈو میں تعمیر گھروں کے کھڑکیاں اس طرح بنائے گئے ہیں کہ کھڑکی کے نیچے باہر جانب گھڑا بنا ہوا ہے کیونکہ اکثر عورتیں گھر کے کام کاج کرنے کے بعد کچرہ گھر سے باہر پھینکا کرتی تھی اور اسکا استعمال بطور کوڑے دان کیا جاتا تھا گویا اب کی طرح کوئی میونسپل کمیٹی ہوئی ہوگی جو گھر کے کوڑے کسی دور اندیش جگہ منتقل کرنے کا انتظام بهی کرتے رہے ہونگے۔

گھروں کے درمیان ایک بڑا پانی کا ٹینکی موجود ہے جسکا فرش اور دیواریں خاص اس انداز سے بنائے گئے ہے جہاں پانی مسلسل كھڑا رہنا ممکن ہو۔ ٹینک کے دونوں اطراف دو بڑے سوراخ ہے۔ ایک سے صاف پانی کا اندارج اور ایک سے خارج کا عمل بہت احسن طریقے سے ہوسکتا ہے۔ آج بھی 4500 سال پرانی تکنیک کو استعمال میں لاتے ہوئے تالاب بناتے ہیں۔ جدید تالابوں میں زمیں کا ایک سطح پانی سے اوپر جہاں بچے اور وہ لوگ جو تیر نہیں سکتے انکے لیے وہ جگہ بنایا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف گہرائی ہوتی ہے ۔

ٹھیک اسی انداز کا تالاب موئن جو دڑو میں موجود ہے۔
سندھ میں اجرک کو خاص مقام حاصل ہے مگر چند کو اس بارے میں معلومات حاصل ہے۔ اجرک خوبصورت ڈیزائنز پر مشتمل سندھ کا ثقافتی شال ہے۔قیاس کیا جاتا ہے کہ اس شال کو Priest king کے مجسمے سے لیا گیا ہے جو 1927 میں کھدائی کے وقت دریافت ہوئی تھی۔ یہ مردانہ مجسمہ سندھ کی تہزیب کی نمایاں نمائندگی ہے جس کی پیشانی پر ایک زیور نماں پٹی اور دائیں بازو پر اس جیسا لیکن چھوٹی پٹی بندھی ہوئی ہے۔

پیشانی پر جو پٹی لگی ہوئی ہے اسکے دونوں سر پچھلے حصے پر پڑتے ہیں اور اس طرح بالوں کو کنگھا کیا گیا ہے کہ پٹی کے دونوں سر بالوں کے ساتھ بغیر کوئی بن موجود ہے۔خوبصورتی کے ساتھ دونوں کانوں میں سوراخ اور گلے میں ہار بتاتے ہے کہ مجسمے کے ساتھ زیورات  بھی منسلک تھے۔
موئن جو دڑو ایک تاریخ کا نام ہے یا کھلی کتاب ہے جسے پڑھنے سے وہ تمام ادوار کھل کر سامنے آجائینگے جو صرف قصوں اور فلموں میں قید ہیں۔

بچپن سے کتانوں میں پڑھنے کے بعد تجسس پیدا ہوا کہ خود اپنی آنکھوں سے اس عجائب کا معائنہ کروں اور ارادے کو تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوا جو کہ مفید اور دلچسپ سفر تھا۔اس تاریخی مقام میں اس قدر گم گئے تھے کہ جانے میں دلچسپی نہیں رہی تھی۔ بظاہر لاڑکانہ میں موجود تھا مگر خیالی دنیا میں 4500 سال پہلے کی زمانے میں ٹہل رہا تھا۔ سائنسی علوم اور انجنیئرنگ میں کمال مہارت رکھنے والوں نے واقعی دنیا کے عجائبات میں سے ایک بنا رکھا ہے۔ سیاق و سباق سے دور اگر ایسی جگہوں کا خود مشاہدہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ نسل انسان کو پروان چڑھتے ہوئے کن کن حالات سے گزرنا ہوا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :