ڈر کس بات کا؟

پیر 30 نومبر 2020

Nazish Gull

نازش گل

اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا کیا تو اس میں کوئی نہ کوئی ڈر ضرور رکھا-اور جب انسان دنیا میں  آیا تو اس ڈر کو اپنے ساتھ لے کر آیا اور وہ جتنی بھی عمر گزارتا ہے  اسی ڈر کے ساتھ گزارتا ہے- ماں کی کوکھ سے موت تک وہ اسی ڈر کے ساتھ جیتا رہتا ہے اور دنیا کا کوئی بھی شخص اسکا وہ ڈر ختم نہیں کرسکتا، یہاں تک کہ وہ شخص خود بھی نہیں۔


کسی شخص کو پانی سے ڈر لگتا ہے تو کسی کو آگ سے- کسی کو اونچائی سے ڈر لگتا ہے- کسی شخص کو قتل و غارت سے ڈر لگتا ہے تو کسی کو لوگوں کے معصوم اور شریف چہرہ سے- کسی کو غریبی سے ڈر لگتا ہے تو کسی کو زیادہ امیری سے- کسی کسی کو تو کرسی چِھن جانے کا بھی ڈر رہتا ہے- یہاں تک کہ لوگ تو ایک دوسرے کی خوشیوں سے بھی ڈرتے ہیں- کسی کو نوکری نہ ملنے کا ڈر ہے تو کسی کو بزنس میں پیسہ لگانے کا ڈر ہے کہ اگر وہ پیسہ اسے منافع دینے کی بجائے اسے تباہ کر گیا تو وہ ماں باپ اور معاشرے کو کیا جواب دے گا۔

(جاری ہے)


انسان جب بھی زندگی میں کبھی کچھ کرنے کا سوچتا ہے تب بھی ایک ڈر ہی اس کی رکاوٹ کا باعث بنتا ہے- انسان اگر کچھ کر ہی لیتا ہے تب بھی اسے کسی نہ کسی بات کا ڈر ہی رہتا ہے اور اگر کچھ نہیں بھی کرتا تب بھی اسے ڈر رہتا رہتا ہے کہ وہ اپنے والدین کو کیا جواب دے گا - ڈر کی وجہ سے ہی انسان اپنی مرضی سے اپنی زندگی سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا اور ڈر کی بدولت لوگ ایک دوسرے کو اپنی انگلیوں کے اشارے پر نچاتے ہیں۔


انسان کہیں بھی چلا جائے، کہیں بھی رہ لے، جتنی بھی تعلیم حاصل کر لے، جتنا بھی پیسہ کمالے لیکن وہ کسی نہ کسی ڈر کا شکار رہتا ہے اور وہ ڈر کے بارے میں سوچنا کبھی نہیں چھوڑ سکتا اور نہ ہی اس ڈر سے وہ کہیں دور بھاگ سکتا ہے- انسان دِن رات اسی ڈر کے بارے میں سوچتا رہتا ہے لیکن اس کو ختم کرنے کے بارے میں کبھی نہیں سوچتا- کیونکہ یہ ڈر انسان کے دماغ میں ڈالنے کے لئے صدیاں لگ جاتی ہیں لیکن اگر انسان اس ڈر کو ختم کرنا چاہے تو ایک لمحہ ہی کافی ہے اور ڈر سے نکلنا ہی سب سے بڑا دلکش تخلیقی فن ہے۔


لیکن یہ سب تو دنیا کے ڈر ہیں جو صرف دنیا میں رہتے ہوئے انسان کا پیچھا کرتے ہیں اور یہ ڈر تو عارضی ہیں اور موت کے بعد تو ختم ہو ہی جائیں گے لیکن انسان اُس ڈر کا کیوں نہیں سوچتا جِس نے مستقل رہنا ہے یعنی موت، قبر اور آخرت کا ڈر- شاید دنیا کے ڈر کو ختم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں اور نہ ہی کوئی حل - لیکن انسان اس ڈر کو ذہن میں کیوں نہیں رکھتا؟ جِس نے اسکا پیچھا کبھی نہیں چھوڑنا؟ وہ کیوں دنیا میں اتنا مصروف ہے کہ وہ آخرت کا سوچتا تک نہیں؟ وہ آخرت کو سنوارنے کے لیے کچھ کر ہی نہیں رہا- حالانکہ اس ڈر کے حل اور آخرت کو سنوارنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں کچھ باتیں بتائی ہیں جس کو ہم ڈر کے ساتھ ہی بھلا چکے ہیں۔


تو پھر کیوں انسان نماز کو چھوڑ دیتا ہے؟ جو آخرت کو سنوارنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے- انسان دنیا میں کیوں اتنے جھوٹ بولتا ہے جو اس کی آخرت کو خراب کر سکتے ہیں- ہم دنیا کی رنگینیوں میں آخرت کو بھلا بیٹھے ہیں - دنیا میں تو ہم ایک دوسرے کے بارے میں بہت کچھ بولتے ہیں کہ اس شخص نے یہ گناہ کر کے اپنی آخرت خراب کر لی لیکن ہم خود کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے کہ ہمارا اپنے ربّ سے تعلق کتنا مضبوط ہے اور ہم نے اپنی آخرت کو سنوارنے کے لیے کتنی محنت کر لی ہے۔
تو فکر کی بات تو یہ ہے کہ کیا ہم نے اپنے اندر آخرت کے ڈر کو پیدا کیا بھی ہے یا نہیں؟ اور اگر کر لیا ہے تو اُس ڈر کے لیے، اُس آخرت کے لیے ہم نے کوئی محنت کی ہے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :