میڈیا ورکر کے مسائل

جمعرات 18 جولائی 2019

Noorulamin Danish

نورالامین دانش

ادھر دھماکے کی اطلاع ملی ادھر ایڈیٹر صاحب نے ٹیم کو جھٹ پٹ پہنچنے کے احکامات صادر فرما دیئے، پولیس،1122،سیکورٹی اداروں سے اکثر اوقات پہلے نہتے میڈیا ورکرز قوم کو باخبر رکھنے یا اپنی نوکری بچانے کے لیئے گولیوں کی تڑتڑاہٹ کو چھیرتے ہوئے فرنٹ لائن پر پہنچتے ہیں، ایک کی دیکھا دیکھی میں دوسرے چینلز بھی اپنے ورکرز کو بڑے سے مانیٹرنگ ہال سے حکم صادر فرما رہے ہوتے کہ اس اینگل سے فٹیج دو اور بہت کچھ۔

۔۔۔
بغیر کسی انشورنس اور حفاظتی اقدامات کے انسان نما مخلوق کا وہ حشر کیا جاتا ہے جو شاید کسی مہذب ملک کے روبوٹ کیساتھ بھی روا نہ رکھا جائے۔
اپنے اپنے مفادات کے تحفظات کے لیئے بنائے گئے ان میڈیا ہاوسز کے مالکان اکثر ورکرز کو ہی ورکر دشمن پالیسی پر لگاتے ہیں اس لیئے باس کی نظر میں پہلا نمبر حاصل کرنے کے لیئے اکثر لوگ شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

(جاری ہے)


دوران ڈیوٹی ایسے کئی واقعات پیش آئے جس میں میڈیا ورکرز جان سے گئے اور ہزاروں معذور ہوئے، ارب پتی سیٹھوں کے ایک ٹائم کے کھانے سے بھی کم پیسوں کے علاج کی رقم نہ ہونے کے باعث زندگی و موت کی کشمکش میں رہتے ہیں۔
مالکان نے اپنے تحفظ کے لیئے کئی صحافی رہنما بھی ہائر کیئے ہوئے ہیں جو صرف اس وقت حرکت میں آتے ہیں جب عام مزودر صحافی کو نکالا جاتا ہے تو یہ پس پردہ اور آجکل تو سب کے سامنے مالکان کا دفاع کر کے نمک حلالی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔


ان تمام لوازمات کے علاوہ دفتر میں 24 گھنٹے چابی والے کھلونے کی طرح برتاو کیا جاتا ہے، سب کچھ کرنے کے باوجود بھی جس بد ترین ذہنی تشدد کا نشانہ ایک میڈٰیا ورکر بنتا ہے دنیا کا شاید ہی کوئی انسان ہو۔۔
اور آخر میں سب سے بڑا ستم یہ کہ 18 گھنٹے ڈیوٹی کر کے حوصلہ افزائی کی بجائے ایک صحافی کو سننے کو ملتی ہیں تو نوکری سے نکالے جانے کی دھکمیاں ، کارکردگی ٹھیک نہیں ہے، رپورٹس مزید بناو اور بہت کچھ!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :