اوورکوٹ

ہفتہ 18 ستمبر 2021

Noorulamin Danish

نورالامین دانش

ارے یار میں نے ابھی اپنے چچا کو 20 لاکھ کا پلاٹ 45 میں بیچا ہے،کیا تم ایسا چونا لگا سکتے ہو ، اس میں کتا بننا پڑتا ہے ، تم شریف آدمی ہو یہ حرامیوں کا کھیل ہے۔
اس نے اپنے سیب والے فون کو الٹا رکھتے ہوئے ایک شریف النفس دوست کو مشورہ دیا اور پھر اگلے محاذ پہ نکل پڑا۔
یہ شب و روز پاکستان میں پراپرٹی کے کاروبار سے منسلک 90 فیصد ڈیلرز کے ہیں ، ڈیلرز کی دنیا میں فراڈ اور کامیابی کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔


لوگوں سے جمع کیئے گئے پیسوں کی ریل پیل ، عوام الناس کی آنکھوں میں دھول کی بجائے تیزاب ڈالنے کے لیئے یہ دلچسپ طریقہ واردات اپناتے ہیں، ایمانداری سے زندگی میں یہ صرف آفس کی بناوٹ کرتے ہیں ، مہنگا ترین فون اور لیپ ٹاپ جسے استعمال کرنا تو درکنار اسے ڈھنگ سے پاور آف کرنا بھی سمجھ سے بالاتر ہے انکی مہنگے برینڈ کی میز پر نظر آئے گا۔

(جاری ہے)


شکار کو پھنسانے کے لیئے 90 فیصد ڈیلرز نے ماڈل طرز کی لڑکیوں کو ریسیپشن اور مختلف جگہوں پر ٹارگٹ سونپے ہوئے ہیں جسکی بجاآوری کے لیئے عورت کارڈ استعمال کیا جاتا ہے، ایک بار انکو آپ کے مالدار ہونے کی بھنک لگ گئی تو روز صبح گڈ مارننگ سے لیکر سونے تک آپ کو یاد رکھا جائے ، پھر چائے آپ قرضہ لیں یا کچھ اور کریں آپ کو ڈیل بیچ کر ہی جان بخشی ہو گی۔


جو پارٹی انکو تھوڑا مال ڈبے والی لگے گی اسے گھیرنے کے لئیئے اسلام آباد کے فائیو سٹار ریسٹورنٹس میں کھانے کھلائے جائیں گے ، کسٹمر کو گھیرنے کے لیئے آوڈی ، مرسیڈیز اور کئی قسم کی مہنگی گاڑیاں انکے دفاتر کے باہر ہمہ وقت دستیاب ہوتی ہیں۔
اس دھندے نما بزنس میں کوئی تعلق یا رشتے کا ایک فیصد بھی کردار نہیں ہوتا ، جہاں پہ ڈنگ لگ گیا فوری لگا دیں گے، جب انہیں کسی قریبی عزیز یا دوست یار کے پاس پیسے آنے کی خبر ہوتی ہے تو فوری طور پر جھپٹیں گے ، منافعے کا جال جسے ہر وقت جیب میں رکھا جاتا ہے اسے فوری طور پر پھینک کر کبڈی کے ماہر کھلاڑی کی طرح ایسے چت کیا جاتا ہے کہ پھر انگ انگ سے کڑ کڑ کی آوازیں نکلتی ہیں۔


پیسوں کی بھر مار کروڑوں کی باتیں لیکن بنیادی طور پر کیونکہ یہ کم پڑھے لکھے ہوتے ہیں اس لِیئے انکا بحث و مباحثہ ہمیشہ انتہائی سطحی قسم کا ہوتا ہے البتہ ان تمام عادات کیساتھ یہ لوگ پیسے کی ہر انسان کی چاہت رکھتے ہیں ، تاہم دوسرے لوگوں کے برعکس یہ ہر بات پہ ہمیں لالچ نہیں ہے کے گیت بھی بے سرے تال کے ساتھ گاتے ہیں۔
تمام تر تنقید کے باوجود ان لوگوں پر ترس بھی آتا ہے ، یہ دس لاکھ کی گھڑی ، کڑوڑ کی گاڑی کیساتھ سرکس کے شیر کی طرح لوگوں کو تو خوش کرتے رہتے ہیں البتہ انکی اپنی ذاتی زندگی انتہائی ڈسٹرب ہوتی ہے۔


اپنے کسٹمر کو خوش کرنے کے لئے بے وقت کا کھانا کھانے کے ساتھ ساتھ یہ روبوٹ کی طرح اپنا منہ بھی اس وقت ہلاتے رہیں گے جب تک شکار بھوک مٹا نہیں لیتا، ان میں سے اکثر کی توندیں بے ڈھنگے انداز سے کئی فٹ آگے بڑھ چکی ہیں ، کئی دل اور شوگر کے مریض بن چکے البتہ اس ڈیلر مافیا کی بدولت خیبر شنواری ریسٹورنٹس کا کمال کام چلا ہے۔
جانے کیوں ان کو دیکھ کر غلام عباس کا افسانہ اوور کوٹ یاد آتا ہے جس کا ایک غریب  کردار شام کو لمبا اوور کوٹ پہن کر ایلیٹ کلاس کے بابو کی طرح لمبی واک کرتا تھا اور حادثے میں مرنے کے بعد جب اوور کوٹ اتارا گیا تو ہی پتہ چلا اندر لباس مفلسی کے سوا کچھ نہ تھا ۔ یہ پراپرٹی والے مفلس تو ہر گز نہیں لیکن اُس کردار سے کچھ نہ کچھ مماثلت ضرور رکھتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :