
قومی ادارے برائے حوصلہ شکنی
منگل 11 اگست 2020

نورالامین دانش
یہ کہانی ہر متوسط طبقے کے طالبعلم کو جھیلنی پڑتی ہے اور ہمارے معاشرے میں یہ بے موسمی پھل کی طرح وافر مقدار میں ہر کلاس روم میں منڈ لا رہی ہوتی ہے۔ غلطی سے بھی اگر آپ نے مستقبل کے کسی خواب کی نشاندہی کر دی تو پھر پہلے پہل آپ کا نام مطلوبہ شعبہ سے جوڑتے ہوئے اسے ہمیشہ کے لئیے آپ کا عرف عام بنا دیا جائے گا جیسا کہ ( بیوروکریٹ ، اینکر ، سیاست دان ، فوجی ) وغیرہ وغیرہ اور یہ کہانی یہیں قطعی طور پہ تھمنے والی نہیں ، سٹاف روم میں بیٹھ کر ماسٹر صاحبان تمام جملہ امور کو سائیڈ پہ کرتے ہوئے اس اجتماعی دلچسپی کے امور کو کبھی بھی مرنے نہیں دیں گے۔
(جاری ہے)
حوصلہ شکنی کے ان اداروں میں کچھ استاتذہ کا کام صرف بچوں پر اپنے ڈنڈے کی وحشت بٹھانا ہوتی ہے جس پر بچے اسے استاد سے زیادہ علاقہ ایس ایچ او کی نگاہ سے گھور رہے ہوتے ہیں اور تو اور اگر آپ نے واٹر کولر کے بغیر فلٹر کئیے پانی کو پینے کی کوشش کی تو سکول انتظامیہ آپ کے تعاقب پر ساری نفری لگا دیتی ہے اور سب آپ کو گستاخ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ آپ نے ٹھنڈا پانی جو نوش فرمایا تھا۔ یہ کہانی سکول ، کالج سے ہوتی ہوئی جب یونیورسٹی پہنچتی ہے تو وہاں ایسے نام نہاد دانشور ٹکرتے ہیں جنہوں نے یونیورسٹی کی چاردیواری اور کتابوں کے ایڈیشن سے باہر نکل کر عملی دنیا کی سنگینیاں نہیں دیکھی ہوتیں ، یہ سب سے پہلے تو آپ کو یہ کہہ کر اپنی دھاک بٹھائیں گے کہ ہم نے اس سبجیکٹ میں ڈاکٹریٹ کی ہوئی ہے لہذا ہم سے زیادہ کامیاب پروفیشنل بننا آپ کے لئیے ناممکن ہے۔
پی ایچ ڈی سے مرعوب ہو کر دور دراز کے علاقوں سے آنیوالے طلبا اگلے چار پانچ سال تو عملی زندگی کا سوچنا بھی چھوڑ دیتے ہیں اور جو کوئی ایک آدھ کوشش کرتا ہے اسے باقی ہجوم نفسیاتی مریض اور نالائق کہہ کر ٹال دیتا ہے اور یوں ٹیلنٹ ہمارے کلاس رومز میں خود کشی پر مجبور ہو جاتا ہے۔
قارئین کرام ! یہ ایک انتہائی وسیع ٹاپک ہے بعض اوقات بہت شفیق ، فرشتہ صفت اساتذہ بھی میسر آ جاتے ہیں لیکن انکو مایوسیوں کے بازاروں میں سے ڈھونڈنا ہر کسی کے بس کا کام نہیں اور ایسے لوگ عموماً پڑھنے پڑھانے کو خیر باد کہہ دیتے ہیں کیونکہ باقی کے لوگ باونڈری لائنز کو کبھی بھی کراس نہیں کرنے دیتے۔ پاکستان کے چند ایک اچھے سکول سسٹمز سمیت دنیا بھر میں بچوں کی مستقبل کے حوالے سے ذہن سازی کی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں پیدائش کے دن گھر میں کیا پکانا ہے سے لیکر پڑھنے اور مستقبل میں کیا بننا ہے کی پالیسی سے اس فریق کو باہر کر دیا جاتا ہے جس کے بارے میں یہ سب کچھ ہو رہا ہوتا ہے۔
ایک بار پھر معذرت کیساتھ ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا ہو گا کہ ہمارے تعلیمی ادارے حوصلہ شکنی کی درسگاہیں بن چکے ہیں جب تک اس قومی بحران پر ہنگامی پالیسی نہیں بنائی جائے گی تب تک شجرکاری مہمیں بھی نقب زنوں کی طرح بد تہذیب ہجوم سے لٹتی رہیں گی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
نورالامین دانش کے کالمز
-
اوورکوٹ
ہفتہ 18 ستمبر 2021
-
مہرہ
ہفتہ 8 مئی 2021
-
بدنام صحافت۔۔۔ بنام صحافت
پیر 25 جنوری 2021
-
اسلام آباد کا سیسیلین مافیا !!!
منگل 1 ستمبر 2020
-
وائرلیس ایڈمینسٹریشن
بدھ 12 اگست 2020
-
قومی ادارے برائے حوصلہ شکنی
منگل 11 اگست 2020
-
چوہدری بننے کے لئیے سی ایس ایس کا امتحان کیوں؟؟؟
بدھ 17 جون 2020
-
بھائی تو نہیں چل پائے گا
جمعہ 12 جون 2020
نورالامین دانش کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.