ذہنی تناؤ کے عوارض اور نتائج

جمعہ 25 دسمبر 2020

Prof Masood Akhtar Hazarvi

پروفیسر مسعود اختر ہزاروی

زندگی کے جس دور میں ہم شب و روز گزار رہے ہیں یقینا مادی لحاظ سے انتہائی ترقی یافتہ دور ہے۔ جو سہولتیں دور قدیم کے بادشاہوں اور بڑے بڑے سرمایہ داروں کو بھی نصیب نہ تھیں وہ آج ایک عام آدمی کو میسر ہیں ۔ لیکن اس حقیقت کا انکار ممکن نہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ کئی الجھنوں، نفسیاتی بیماریوں اور معاشرتی مسائل میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ سماجی و معاشی مسائل ہی اکثر ذہنی بیماریوں اور نفسیاتی پیچیدگیوں کا سبب بنتے ہیں۔ جس قدر سماجی رویے مثبت اور معاشرہ پر سکون ہوگا اسی قدر ان بیماریوں سے بھی چھٹکارہ ملے گا۔ جو معاشرے گوناں گوں مسائل کا شکار ہوتے ہیں وہاں کے باسی ذہنی دباؤ اور کھچاؤ میں مبتلا بھی ر ہتے ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کیلئے معاشرے کے تمام طبقات کو اہم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

کچھ مسائل حکومتوں کی غلط پالیسیوں یا غیر ذمہ دارانہ رویوں، عدالتوں کی بے انصافیوں یا غلط فیصلوں اور طبقاتی نظام تعلیم یا جہالت کی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔کچھ صورتوں میں موروثی اور جنیاتی طرز پر بھی یہ بیماریاں نسل در نسل چلتی ہیں ۔ ہر ملک اور معاشرہ کے اپنے معروضی حالات میں اس صورت احوال کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ مغربی ممالک میں عمومی طور پر لوگ خوشحال ہیں لیکن پھر بھی بیشمار لوگ نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہیں ۔

اس کا سبب مذہب سے لاتعلقی، کثرت سے شراب نوشی، ناہموار ازدواجی زندگی اور انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کا بے ہنگھم استعمال ہے ۔اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ یہی ذہنی تناؤ خود کشی ، دوسروں کو ضرر پہنچانے یا قتل و غارت کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ مغرب میں بسنے والے ایشیائی بھی مالی لحاظ سے خوشحال ہونے کے باوجود کثیر تعداد میں ڈیپریشن اور ٹینشن کا شکار نظر آتے ہیں۔

زیادہ تر ماں باپ اولاد کے ہاتھوں بے خوابی اور پریشانی کا شکار ہیں۔ طلاق کا بڑھتا ہوا تناسب اور دیگر ازدواجی الجھنیں بھی نفسیاتی امراض کا سبب ہیں۔ جب ڈاکٹر کے پاس جائیں تو وہ دماغی بیماریوں کے ٹیسٹ کرکے طرح طرح کے مشورے اور ادویات دیتے ہیں۔ اکثر یہ ادویات اس لئے کارگر ثابت نہیں ہوتیں کہ مادی اور جسمانی بیماری تو ہے نہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کے ان مسائل کا پائدار حل تلاش کیا جائے جو ان بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔

جب اس موضوع پر بات ہو تو اکثر لوگوں کے نشتر ِتنقید کا حدف مغرب کا نظام بن جاتا ہے۔ ہمارے مشاہدے اور دانست کے مطابق ہمیں مغربی معاشروں پر تنقید کرنے یا انہیں مورد الزام ٹھہرانے سے زیادہ اپنی ذمہ داریوں کے احساس اور کوہتاہیوں کے ازالے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ جتنی مذہبی اور سماجی آزادی مغرب میں ہے اتنی ہمیں مسلمان ملکوں میں بھی نہیں ملتی۔

سوال یہ ہے کہ اگرایشیائی طرز پر تمام اسلامی و غیر اسلامی رسم و رواج کے ساتھ بچوں کی شادیاں کرنے میں فخر محسوس کیا جا سکتا ہے تو پھر اسلامی طرز پر بچپن سے ہی ان کی تربیت کرنے میں کون سی رکاوٹ ہے؟ اسی طرح بچوں کی مرضی کے بغیر زبردستی کی شادیاں بھی خاندانوں میں توڑ پھوڑ اورفساد کا سبب بنتی ہیں ۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس سے بھی ذہنی دباؤ کے نتیجے میں نفسیاتی امراض جنم لیتے ہیں۔

حالانکہ اسلامی تعلیمات تو زبردستی کے سخت خلاف ہیں خواہ کسی کو کفر سے اسلام میں لانا ہو یا رشتہ ازدواج میں منسلک کرنا ہو۔ اسلام معاشرے میں رہنے والے لوگوں کو فکری آزادی اور مذہبی احترام کا درس دیتا ہے۔ مختصر یہ کہ ہماری بہت سی پریشایوں کا علاج اسلامی طرز زندگی ہے۔اگر ایشیائی معاشروں پر نظر دوڑائی جائے تو وہاں کی پریشانیوں میں ایک بڑا حصہ ارباب اقتدار کا بھی ہے۔

ایک وقت تھا کہ اخبارات میں اکی دکی جرائم کی خبر آجاتی تھی۔ لیکن بد قسمتی سے اب تو ہر اخبار میں جرائم کی خبروں کا باقاعدہ صفحہ مختص کر دیا گیا ہے۔ ان میں چوری چکاری، ریپ، قتل و غارت اور مارپیٹ کی خبروں کی بھرمار ہوتی ہے۔ اسی طرح الیکٹرانک میڈیا پر نشر ہونے والے زیادہ تر خبریں بھی اسی طرز کی ہوتی ہیں۔ جنہوں نے یہ جرائم کیے وہ تو نفسیاتی مریض ہوں گے یا نہیں البتہ ہمہ وقت ایسی خبریں پڑھنے اور سننے والوں کو ضرور کسی حد تک یہ عارضہ لاحق ہوجاتا ہے۔

ایک سروے کے مطابق لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی ڈیپریشن، ٹینشن اور انجانے خوف میں مبتلا ہیں۔یہ صورت حال معاشرے کوسیگریٹ نوشی، ہیروئن، چرس، شراب نوشی اور طرح طرح کی دیگر منشیات کے استعمال کی طرف دھکیل رہی ہے۔ ایسے نشے کے عادی لوگوں کے علاج معالجے پر قومی خزانے سے اربوں روپیہ بھی خرچ ہو رہا ہے جو کہ ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ اس تشویش ناک صورت حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اقتدار، سیاسی قائدین اور اکابرین امن و سکون اور معاشی و سماجی حالات کی بہتری کیلئے اپنا منصبی کردار ادا کریں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کمپیوٹر اس دور کی اہم ترین ایجاد ہے۔ آج تو انٹر نیٹ کے بغیر کمپیوٹر کا نام بھی ادھورا رہ جاتا ہے۔ اس کے بیشمار فوائد ہیں جن پر بڑی بڑی ضخیم کتب لکھی گئیں۔ لیکن اس کے استعمال کے منفی پہلووں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے بے جا اور غیر متوازی استعمال سے کئی ذہنی بیماریاں پیدا ہوئیں ۔ کئی گھر اجڑے اور کئی فسادات نے جنم لیا۔

ایشیا کے متعلق ایک ریپورٹ کے مطابق انٹر نیٹ کے چالیس فیصد صارفین ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوئے۔ جن میں نہ صرف نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہیں بلکہ شادی شدہ لوگوں کی کثیر تعداد بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ علاوہ ازیں سائبر کرائم تو مستقل قانون بن چکا ہے۔ اسی طرح کے فراڈ معاشی اور معاشرتی نقصانات اور ذہنی بیماریوں کا سبب بھی بنتے ہیں۔ عقل مندی کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ان امراض کے حقیقی اسباب کا جائزہ لے کر ان کے سد باب پر توجہ دی جائے۔ ورنہ یہ صورت حال معاشروں کو کھوکھلا کرکے دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ باشعور لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ بقول کسے
ایسا  نہ  ہو  کہ  مرض  بنے  مرض لادوا
 ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :