کورونا وائرس اور ویکسین کے متعلق غلط فہمیاں

منگل 9 مارچ 2021

Prof Masood Akhtar Hazarvi

پروفیسر مسعود اختر ہزاروی

آج دنیا کے دو سو کے قریب ممالک کورونا وائریس کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں کسی نہ کسی طرح متاثر ہیں۔ نظروں سے اوجھل ایک چھوٹا سا وائرس پوری دنیا کے لئے سوہان روح بنا ہوا ہے۔ مختلف فکر و نظر کے لوگ اس پر اظہار خیال کر رہے ہیں۔ کچھ طبی ماہرین اس کے اثرات سے بچنے کیلئے عمدہ اور حکیمانہ مشورے دے رہے ہیں جو قیمتی اور قابل عمل ہیں۔

اسی طرح حکومتیں اور متعلقہ ادارے بھی اپنے شہریوں کی جانوں کے تحفظ کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ جس پر عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں اس بحث میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں کہ بقول صدر ٹرمپ یہ چائنی وائریس ہے یا چائنیز کے مطابق یہ وائریس چائنہ کے شہر ووہان میں امریکی فوجیوں نے ایک منصوبہ بندی کے تحت پھیلایا۔

(جاری ہے)

ہمارا پختہ ایمان ہے کہ اسباب کچھ بھی ہوں البتہ کوئی بھی وائریس یا اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماری ﷲ کے حکم کے بغیر نہیں آسکتی۔

دنیا بھر کے ڈاکٹروں کی تحقیقات کا بلا تعصب جائزہ لیا جائے تو بات سمٹ کر یہاں آجاتی ہے کہ اگر ہم اسلام کی پاکیزہ تعلیمات پر عمل کر لیں تو ایسی کئی بیماریوں سے چھٹکارہ مل سکتا ہے۔ وہ لبرلز اور دین بیزار جو علماء کے استنجا اور وضوء کے مسائل بیان کرنے پر سیخ پا ہوتے کہ سائنس نے کتنی ترقی کر لی اور آپ ابھی تک مسائل طہارت بیان کرنے میں لگے ہو۔

وہ آج دیکھ لیں کہ اسلامی طرز طہارت کے وہ سارے مسائل سائنسدان اور ڈاکٹرز زور شور سے بیان کر رہے ہیں۔ نجاست سے بیماری پھیلتی ہے اور انسانوں کی ہلاکت ہوتی ہے اس لئے اسلام کی سب سے سنہری تعلیم یہ ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ صفائی ستھرائی کا حکم دیتا ہے۔پاک کپڑوں میں ملبوس ہو کر، پاک جگہ پر باوضو ہو کر دن میں پانچ مرتبہ نمازکی ادائیگی اس کی بڑی دلیل ہے۔

وضو میں منہ اور ناک میں پانی داخل کرکے جراثیم سے جسم کی حفاظت کرنا، نیز جمعہ و عیدین کے دن مسنون غسل اور ناپاک ہونے پر فرض غسل جنابت کا حکم دینا اسلام کی پاکیزہ تعلیمات ہیں بلکہ پیشاب کے بعد استنجا کرنا بیماری سے بچاؤ کی عمدہ تعلیم ہے۔آپ اندازہ لگائیں کہ اسلام نے برتن میں پھونک مارنے سے منع کیا ہے تاکہ پھونک سے جو جراثیم نکلتے ہیں کہیں اس کے سبب کھانے پینے سے کوئی بیماری نہ لگ جائے۔

اسلام ایسی کوئی چیز کھانے پینے سے منع کرتا ہے جس سے انسانی جسم اور صحت کونقصان پہنچے۔ کورونا وائریس ایک وبا اور آفت ہے جو کہ اس کا منفی پہلو ہے البتہ اس نے انسان کو انسانیت اور خالق کی حقانیت کی طرف بھی متوجہ کیاہے۔ اس نے انسانوں کوﷲ کی وحدانیت اور اس احکم الحاکمین کی قدرت دکھائی ہے۔ آج عملی طورپریہ بات واضح ہوگئی کہ کس طرح بظاہر ایک چھوٹا سا وائرس دنیا بھر کی طبی سائینس کیلئے ایک چیلنج بنا ہواہے۔


 ﷲ سب کو اس وبا سے محفوظ رکھے مگر احتیاط لازم ہے، احتیاط نہ کرنا خودکشی اور خودکشی حرام ہے۔ کورونا وائرس کے وباءشروع ہونے سے اب تک دنیا بھر کی نظریں سائنسدانوں پر تھیں کہ وہ کب ویکسین تیار ہونے کی خبر دیں گے۔ بالآخر یہ خوشخبری ترک نژاد مسلمان میاں بیوی ڈاکٹر اوگر شاہین اور ڈاکٹر اوزلیم توریشی نے دنیا کو سنائی، جن کی بنائی ہوئی ویکسین 90 فیصد سے زائد مؤثر ثابت ہوئی۔

میاں بیوی کی اس ٹیم نے امریکی کمپنی فائزر کے ساتھ مل کر یہ ویکسین تیار کی۔ جس کے لیے 7سے 8ماہ تک تحقیق کا کام کیا گیا اور بالآخر ان کی کمپنی ’بائیو این ٹیک‘ اپنے مقصد میں کامیاب رہی۔ جب سے یہ ویکسین آئی ہے طرح طرح کی غلط فہمیاں بھی عروج پر ہیں۔ کچھ لوگ حلال اور حرام کے سوالات اٹھاکر اس ویکسین سے لوگوں کو بد ظن کر رہے ہیں تو کچھ ایسی تھیوریز پھیلا رہے ہیں کہ اس ویکسین کے استعمال کے بعد رد عمل میں کئی اور بیماریاں جنم لیں گی۔

جہاں تک حلت اور حرمت کا تعلق ہے،  ہمارا دین اسلام بیماریوں کے علاج کی اجازت ہی نہیں بلکہ اس پر زور دیتا ہے۔ فلو، ٹی بی، کینسر اور دیگر جان لیوا امراض کیلئے ویکسینز پہلے بھی زیر استعمال ہیں۔ کوڈ 19 کی ویکسین بھی ان کی ہی طرح ایک جان لیوا بیماری کا علاج ہے۔ جید علماء اسلام نے تحقیق و جستجو کے بعد اسے حلال قرار دیا ہےلھذا شرعا اسے لگوانے میں کوئی قباحت نہیں۔

جہاں تک سائڈ ایفیکٹس کا تعلق ہے،  تو برطانیہ میں سب سے پہلے یہ ویکسین ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو لگائی گئی۔ یہ بھی اس کے موثر اور بے ضرر ہونے کا بین ثبوت ہے۔ اگر کچھ بھی ایسی بات ہوتی ڈاکٹرز ضرور اسے لگوانے سے انکار کرتے۔ بلا جھجک ہم سب کو یہ ویکسین لگوانی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ کریم کی بارگاہ میں التجائیں بھی کریں کہ اس وبا سے انسانیت کو نجات ملے۔آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :