ماواں ٹھنڈیاں چھاواں

پیر 1 فروری 2021

Prof Masood Akhtar Hazarvi

پروفیسر مسعود اختر ہزاروی

راقم اس وقت شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد میں ہے۔ جب کچھ لکھنے کیلئے قلم اٹھایا تو ذہن گھوم پھر کے ایک ہی موضوع کی طرف متوجہ ہوا اور وہ ہے "ماں کی عظمت و شان"۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میری والدہ محترمہ شدید بیماری میں مبتلا اسی ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ آج کل اللہ تعالٰی کی توفیق سے خصوصی طور پر اپنی ماں کی خدمت اور تیمارداری کیلئے یہاں موجود ہوں۔

جب میں اپنی ماں کے پاؤں اور کاندھوں کو دبا رہا ہوتا ہوں۔ ان کے پاس بیٹھ کر ان کے چہرے کی زیارت کر رہا ہوتا ہوں۔ ان کی دھیمی دھیمی آواز میں حکمت بھری باتیں سن رہا ہوتا ہوں،  تو طرح طرح کے خیالات مجھے گھیر لیتے ہیں۔ ماں باپ کی خدمت سے متعلق قرآنی آیات ذہن میں عود کر آتی ہیں۔ خصوصا پاؤں کو دباتے وقت حدیث مبارکہ کے مطابق یہی سوچ رہا ہوتا ہوں کہ یہی وہ مقام ہے جہاں میری جنت پنہاں ہے۔

(جاری ہے)

پھر یہ بھی خیال آتا ہے کہ ماں بھی بظاہر عام عورتوں کی طرح ایک عورت ہے۔ لیکن ان کی یہ عقیدت و محبت میرے قلب و ذہن میں کیوں جاگزیں ہے۔ جبکہ اس وقت "مہذب دنیا" کے بے شمار ممالک میں سگی اولاد ماں باپ کو اولڈ ایج ہوم چھوڑ کر اپنے اللوں تللوں میں مصروف عمل دکھائی دیتی ہے لیکن ہم کیوں اس عمل کو  بے ہودہ اور اولاد کیلئے بد بختی کا باعث سمجھنے ہیں؟ پھر ان سارے سوالات کے جوابات میرے ذہن پر چھم چھم برسنا شروع ہوگئے۔

سوچتا ہوں کہ ہم بحیثیت انسان اس قابل کہاں کہ والدین خصوصا والدہ کے مقام و مرتبہ کو عقل و خرد کی گتھیاں سلجھا کے سمجھ سکیں۔ یہ تو عطا ہے اللہ تبارک و  تعالٰی کی کہ جس نے نبی محتشم آقائے نعمت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ و سلم کو اپنا آخری نبی اور رسول بنا کر بھیجا۔ آپ نے ہمیں باوقار زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے سینہ اطہر پر قرآن نازل ہوا۔

قرآن کریم والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرتے ھوئے دو مستقل آیتوں میں ماں کے مقام اور حمل کے دوران اس کی تکالیف کو بیان کرکے اولاد کو احساس ذمہ داری یاد دلا رہا ہے۔ سورہ الاحقاف آیت نمبر 15میں ارشاد فرمایا کہ"ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق  نصیحت کی ھے کہ اس کی ماں نے مصائب برداشت کرتے ھوئے اسے حمل میں رکھا اور اس کے دودھ پینے کی مدت دو برس ھے کہ اے انسان تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کراور تم سب کو میری ھی طرف لوٹ کر آنا ھے۔

ایک اور مقام پہ قرآن کی سورہ لقمان آیت نمبر 14 میں فرمایا گیا کہ "ھم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ،اس کی ماں نے اسے تکلیف برداشت کر کے پیٹ میں رکھا اور تکلیف جھیل کر اسے پیدا کیا۔ اس روئے زمین پر اللہ و رسول ﷺکی اطاعت و فرما نبرداری کے بعد اگر کسی کا حق ہے تو وہ والدین ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ رب کائنات نے اپنی اطاعت وفر مانبر داری کےفوراًبعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ۔

ایسا کیوں؟ والدین کے ساتھ اچھے اخلاق و عادات کے ساتھ پیش آنے کا اس قدر تا کیدی حکم کیوں ؟ کیوں کہ کائنات میں ''ماں ''وہ واحد ہستی ہے جو اپنی ہر دلعزیز  اولاد کیلئے ہرطرح کی تکلیف بر داشت کرنے پر راضی ہو تی ہے ۔ یہی وہ ہستی ہے جو اپنے بطن نازک میں کھلنے والی کلی کو ایک دو ماہ نہیں بلکہ مسلسل نو ماہ تک پناہ دیتی ہے۔  جب بچہ کی پیدائش کا وقت آتا ہے تو بعض مائیں موت حیات کی کشمکش میں مبتلا ہو جاتی ہے۔

ماں سے زیادہ اولاد سے محبت کرنے والا کوئی اور نہیں۔ رب العزت نے سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر23-24 میں فرمایا ہے "اور فیصلہ کر دیا ہے تیرے رب نے کہ نہ عبادت کرو تم مگر صرف اسی کی اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو اگر پہنچ جائیں تمھارے پاس بڑھاپے کو ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تو نہ کہو تم انہیں اف بھی اور نہ جھڑکو انہیں اور بات کرو ان سے احترام کے ساتھ اور جھکاؤ ان کے حضور اپنے پہلو عاجزی سے اور شفقت کی بنا پر اور دعا کرو ان کے حق میں اے میرے رب ! رحم فرما ان پر اسی طرح جیسے انھوں نے مجھے پالا بچپن میں۔

" اسی طرح سورہ العنکبوت پارہ نمبر20 آیت نمبر8 میں فرمایا کہ "ہدایت کی ہم نے انسان کو کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے " کس قدر بد قسمتی ہے کہ ایک مسلمان اپنے ماں باپ کو بوجھ جان کر اولڈ ایج ہومز میں بھیج دے۔ پاکستان کے کئی چینلز نے اولڈ ایج ہومز میں مقیم ایسے لاوارث بوڑھے مردوں عورتوں پر مبنی ویڈیوز عوام کو دکھائی ہیں ۔ بوڑھی خواتین رو رو کر بتاتی ہیں کہ کئی کئی سالوں سے انہوں نے اپنی اولاد کی شکل نہیں دیکھی۔

ایک دفعہ ایک سائل نے ہادی عالم صلی اللہ علیہ والہ و سلم سے سوال کیا کہ حضور قیامت کب آئے گی؟ اس کے آنے کی کوئی نشانی بتا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا جب اولاد ماں کو ذلیل کرے گی تو قیامت آنے کے آثار ہونگے ۔ ماں کی عظمت اور اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر آج کے ترقی یافتہ اور بزعم خویش مہذب دور میں وہ بدنصیب لوگ بھی ہیں جو اپنی ماؤں کی شان میں گستاخی اور بد تمیزی کرتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں یہ رجحان روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے، جس پر قابو صرف اور صرف اسلام کی تعلیمات کو فروغ دے کر ہی پایا جا سکتا ہے تاکہ آج کا انسان یہ سمجھ سکے کہ ماں کی عظمت اور اہمیت کیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک خصوصاً یورپی ممالک میں ماؤں کا عالمی دن تو بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے مگر ماؤں کو ان کے مقام کے مطابق وہ قدرومنزلت نہیں دی جاتی جس کی وہ حقدار ہیں۔

یورپی ممالک میں بوڑھی ماؤں کو اولڈ ہاؤسز میں چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں وہ اپنی اولاد سے دور تنہائی کی زندگی گزارتی ہیں لہٰذا معاشرے میں ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ماؤں کی عزت اور احترام کو صرف ماؤں کے عالمی دن تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ ساری زندگی کے ایک ایک لمحے میں ماؤں کو وہ مقام و مرتبہ دیا جائے جن کی وہ حقدار ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :