
اب کہاں جائیں ہم
اتوار 2 مارچ 2014

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
شریف نے بھی ہمیں لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ تو گھر گھر کی کہانی ہے اور گیس کے بِل دیکھ کر ہر گھر میں کہرام بپا ہے ۔لوگ دفتروں میں دھکے کھا رہے لیکن کوئی شنوائی نہیں اِس لیے بہتر یہی ہے کہ بِل جمع کروا دیا جائے لیکن ہماری ایک ہی ضد تھی کہ بِل میں گَڑ بَڑ ہے اِس لیے اِسے ٹھیک کروانا ہمارا آئینی و قانونی حق ہے ۔
ہم نے شریف کو کہا کہ یہ تو حکومت ہی ”شریفوں“ کی ہے اِس لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے بِل ٹھیک کرواوٴ ۔ہماری ضِد کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے میرے میاں اور شریف دونوں گُلبرگ میں سوئی گیس کے ہیڈ آفس چلے گئے ۔”مِرچ مصالحے“ کے بغیر ہیڈ آفس کی جو کہانی اُنہوں نے سُنائی ، وہ کچھ یوں تھی کہ ہیڈ آفس کا مین گیٹ بند تھا اور باہر سڑک پر سینکڑوں کی تعداد میں مَرد اور عورتیں ”انٹری پاس“ کے لیے شہد کی مکھیوں کی طرح کھڑکیوں کے ساتھ چمٹے ہوئے بے بسی کی تصویر بنے نظر آتے تھے کیونکہ ”کمپلینٹ“ کا وقت صرف بارہ بجے تک تھا ۔یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ سوئی گیس کا ہیڈ آفس نہیں ، وزیرِ اعظم ہاوٴس ہو جہاں پرندہ بھی پَر نہیں مار سکتا ۔بعد اَز خرابیٴ بسیار جب وہ متعلقہ آفیسر کے پاس پہنچے تو اُس نے کوئی بات سُنے بغیر مُسکراتے ہوئے کہا کہ بِل فوراََ جمع کروا دیں وگرنہ میٹر کَٹ جانے پر کم از کم اگلے چھ ماہ تک میٹر نہیں لگے گا ۔ میرے میاں اُسی وقت ببھاگم بھاگ بینک پہنچے اور بِل جمع کروا کر دَم لیا۔وہ جب غصّے سے لال بھبھوکا گھر واپس آئے اور اُن کا غُصّہ دیکھ کر ہماری حالت یہ تھی کہ کاٹو تو بَدن میں لہو نہیں۔ہم چونکہ تھوڑے ضدی اور ہَٹ دھرم واقع ہوئے ہیں اِس لیے اپنے طور پر معاملے کی تہ تک پہنچنے میں جُٹ گئے ۔ہم پر یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ سوئی گیس کا محکمہ عوام کی چمڑی اُدھیڑنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا ۔محکمے نے اپنی کرپشن اور”لاسِز“ چھپانے کے لیے انوکھا اور نرالا” طریقہٴ واردات “نکالا ہے۔خصوصی ہدایات کے تحت میٹر ریڈر سردیوں میں دو ، دو ماہ تک ریڈنگ نہیں کرتے اور محکمہ تھوڑے تھوڑے بِل بھیجتا رہتا ہے ۔مقصد یہ کہ ریڈنگ کسی نہ کسی طرح سے ”Slab 3 “ تک پہنچ جائے جِس کی قیمت 530 روپے فی MMBTU ہے جبکہSlab وَن کے ریٹس 106 اور ٹو کے 212 روپے فی MMBTU ہیں ۔محکمہ اُسی وقت بِل جاری کرتا ہے جب ریڈنگ سلیب تین تک پہنچ جائے اور اِس طرح وہ پانچ گُنا زیادہ بِل وصول کر سکے ۔دوسرا طریقہٴ واردات یہ ہے کہ بِل آخری تاریخ سے محض ایک دِن پہلے آتا ہے تاکہ خوف زدہ صارفین بھاگم بھاگ بِل جمع کروا دیں ۔اِس صریحاََ بے ایمانی پر ”اَز خود نوٹس“ لینے والے پتہ نہیں کہاں جا سوئے ہیں ۔موجودہ حکومت ، جو عوام کی اُمنگوں کا محور ہے اور ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اگر خُدانخواستہ یہ حکومت بھی ناکام ہو گئی تو پھر آگے اندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔اِس کے کار پردازوں کو کیا یہ بھی پتہ نہیں کہ بھوکوں مرتے عوام کی بے بسی جب اپنی انتہاوٴں کو چھونے لگتی ہے تو خونی انقلاب آتے ہیں۔ مسّلمہ حقیقت بھی یہی ہے کہ
خود ناچتی ہیں اور نچاتی ہیں روٹیاں
ہمیں میاں برادران کے دِلی درد ، صلاحیتوں اور پاکستان سے محبت پر آج بھی اعتماد ہے لیکن یہ ضرور کہے دیتے ہیں کہ اگر مہنگائی کی ماری قوم کا یہی حال رہا اور بَد دل قوم نے یہ کہنا بند کر دیا کہ ”قدم بڑھاوٴ نواز شرف ، ہم تمہارے ساتھ ہیں “ تو پھر اُن کے سارے منصوبے دھڑام سے نیچے آن گریں گے، جِس سے زیادہ بَد قسمتی کی بات اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی ۔مانا کہ اِس وقت دہشت گردی کا عفریت حکمرانوں کو گھیرے ہوئے ہے لیکن قوم کی بَد حالی اُس سے بھی بڑا عفریت ہے ۔دہشت گردی پر تو قابو پایا جا سکتا ہے اور جِس خلوصِ نیت سے اکابرینِ حکومت اِس کام میں جٹے ہوئے ہیں اُسے دیکھ کر یقین ہونے لگا ہے کہ انشاء اللہ بہت جلد دہشت گردی کو جَڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا لیکن اگر ”مقہور“ قطار اندر قطار باہر نکل آئے تو اُنہیں قابو میں لانا ناممکن ہو گا۔ہمیں ادراک ہے کہ یہ مہنگائی موجودہ حکومت کی پیدا کردہ نہیں اسی ادراک کے ساتھ قوم جیسے تیسے زندگی گھسیٹ بھی رہی ہے لیکن جِس طرح سے ”یوٹیلٹی بِلز “ میں صریحاََ زیادتی کی جا رہی ہے وہ کسی بھی صورت میں قابلِ برداشت نہیں ۔غالباََحکمرانوں تک سڑکوں پہ نکلے عوام کا یہ احتجاج تو پہنچ ہی چکا ہو گا کہ سوئی گیس کے محکمے نے صریحاََ زیادتی کرتے ہوئے ہزاروں روپے کے بِل بھیج کر لوگوں کے گھریلو بجٹ تہس نہس کر دیے ہیں ۔ابھی تو بہت تھوڑے لوگ سڑکوں پر نکلے ہیں لیکن کیا حکومت یہ چاہتی ہے کہ پوری قوم ہی سڑکوں پر نکل آئے؟۔آخر میں اپنے ، بالکل اپنے حکمرانوں کی خدمت میں یہ قومی نوحہ کہ
تُم نے میرا اُمید سے کم ساتھ دیا ہے
اے قافلے والو ! میری ہمت کو سراہو
ہر چند کہ زخمی ہیں قدم ، ساتھ دیا ہے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.