
افواجِ پاکستان ہمارا فخر
پیر 14 اپریل 2014

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
دینِ مبیں کی تاریخ میں حضرت ابراہیم کا باپ،حضرت لوط کی بیوی اور حضرت نوح کا بیٹا ، ربّ ِ ذوالجلال کے ہاں راندہٴ درگاہ ٹھہرے لیکن کیا اِس بنا پر اُن انبیاء کی توقیر میں (نعوذ باللہ) کوئی فرق پڑا ؟۔
روزِ محشر ہر کسی کو اپنے اپنے اعمال کا حساب خود دینا ہو گا ۔اُس نفسا نفسی کے عالم میں باپ کام آئے گا نہ بیٹا، ماں سفارش کرے گی نہ بہن ۔اگر ربّ ِ کریم نے اُخروی اور ابدی زندگی کے لیے باپ کے اعمال کا ذمہ دار بیٹے کو قرار دیا ، نہ بیٹے کے اعمال کا باپ کو تو پھر اِس چند روزہ فانی زندگی میں یہ کہنا کہاں تک درست ہو سکتا ہے کہ پاک فوج کے کچھ سابق سَر براہوں کے افعال و اعمال پر تنقیددر اصل افواجِ پاکستان پر تنقید ہے جو اُس کی بدنامی کا باعث بنتی ہے؟۔اگر پرویز مشرف صاحب نے جس آئین کے تحت حلف اُٹھایا ، اُسی آئین کو توڑنے کے مرتکب ہوئے ہیں تو کیا اُن سے محض اِس لیے صرفِ نظر کیا جائے کہ وہ پاک فوج کے سَربراہ رہ چکے ہیں ؟۔اور کیا آقا کا یہ فرمان (نعوذ باللہ) فراموش کر دیں ”وہ قومیں برباد ہو جاتی ہیں جو طاقت وروں کو چھوڑ دیتی اور کمزوروں کو سزا دیتی ہیں “۔کیا اُس عدل کو فراموش کر دیں جس پر دینِ مبیں کی یہ عظیم الشان عمارت اُستوار ہے ؟۔میڈیا پر باتیں فتح مکّہ کے موقعے پر عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے میرے آقا کی عام معافی کی ہورہی ہیں ۔عرض ہے کہ مکّہ تو مسلمانوں نے فتح کیا تھا اور مفتوحین کو حضورِ اکرم نے چند نرم شرائط کے ساتھ عام معافی دے دی لیکن یہاں تو کوئی فاتح ہے نہ مفتوح، یہاں تو ایک آئین شکن ملزم کا معاملہ ہے اور کیا ہم نہیں جانتے کہ ایک دفعہ جب ایک طاقتور قبیلے کی عورت نے چوری کی تو حضور نے اُس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا ۔صحابہ نے عرض کیا کہ اِس عورت کو معاف کر دیا جائے کیونکہ قبیلہ طاقتور ہے اور شَر کا اندیشہ ہے ۔تب حضور نے فرمایا” ربّ ِ کعبہ کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی ہوتی تو میں اُس کا ہاتھ کاٹنے کا بھی حکم دیتا“(مفہوم)۔اکتوبر 1999ء میں محترم نواز شریف نے اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے جنرل ضیاء الدین بَٹ کو افواجِ پاکستان کا نیا سر براہ بنانے کی کوشش کی اور ایسا کرتے ہوئے میاں صاحب کے سامنے کارگل کی جنگ اور پرویز مشرف صاحب کی باغیانہ روش تھی ۔اگر آئین وزیرِ اعظم کو یہ حق نہیں دیتا تو پھر میاں صاحب قومی مجرم ہیں اور اگر یہ اُن کا آئینی حق تھا تو پھر کیا پرویز مشرف صاحب قومی مجرم نہیں ٹھہرتے ؟۔ فوج ایک با وقار ادارہ ہے جس کا احترام سب پر لازم لیکن میاں نواز شریف صاحب بھی تو سولہ کروڑ عوام کے منتخب نمائندے تھے ۔کیا اُن کا احترام واجب نہیں تھا ؟۔ کیا ہم دینَ مبیں کا یہ حکم بھول گئے کہ اللہ کی اطاعت کرو ، اللہ کے رسول کی اطاعت کرو اور حاکمِ وقت کی ۔سوال یہ ہے کہ اکتوبر 1999ء میں حاکمِ وقت کون تھا، پرویز مشرف یا میاں نواز شریف؟۔اگر میاں نواز شریف ہی حاکمِ وقت تھے تو پھر کِس کی اطاعت واجب تھی ؟۔ پرویز مشرف صاحب کے دَور میں میاں نواز شریف صاحب کے ساتھیوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے گئے اور جو سلوک خواجہ محمد آصف ، خواجہ سعد رفیق اور پرویز رشید صاحب کے ساتھ روا رکھا گیا وہ اتنا کریہہ اور گھناوٴنا ہے کہ خود اِن اصحاب کی زبانیں گُنگ۔اِس انسانیت سوز سلوک کے باوجود سبھی نے اپنی ذاتی رنجشوں کو بھلا کر جب کئی بار یہ کہا کہ اُنہوں نے پرویز مشرف کو معاف کر دیاتو پھر ہمیں بھی اُن کے کہے پہ یقین کر لینا چاہیے ، حالانکہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا بھی عین اسلام ہے ۔اِن اصحاب نے پرویز مشرف صاحب کے معاملے میں وہی رویہ اختیار کیا جو حضرت علی نے ایک یہودی کے ساتھ اختیار کیا تھا ۔ حضرت علی نے دَورانِ جنگ ایک یہودی کو زمین پر گرا یا اور اُس کی چھاتی پر بیٹھ کر اُس کی گردن تَن سے جدا کرنے ہی والے تھے کہ اچانک یہودی نے آپ کے مُنہ پر تھوک دیا ۔حضرت علی اُس کی چھاتی سے اُتر گئے اور اُسے معاف کر دیا ۔یہودی کے استفسار پر آپ نے فرمایا ”پہلے میں تمہیں اللہ ذوالجلال کی خاطر قتل کرنا چاہتا تھا لیکن تمہارے میرے مُنہ پر تھوکنے سے اِس میں میری ذاتی رنجش بھی شامل ہو گئی ۔اِس لیے میں نے تمہیں معاف کر دیا“۔میاں فیملی ، خواجگان اور پرویز رشید صاحب تو ذاتی رنجش معاف کر چکے لیکن قومی جرم معاف کرنے کا حق تو اُنہیں بھی حاصل نہیں ۔ ایسے طالع آزما جو آئین کو سو صفحات پر مشتمل ایک فضول سی کتاب سمجھتے ہیں ، اُن پر تنقید ہمارا حق ہے اور فرض بھی ، جو ہم اداکرتے رہیں گے لیکن اِس کا یہ کہاں مطلب نکلتا ہے کہ ہمیں افواجِ پاکستان سے پیار نہیں ؟۔بات اشرافیہ کی نہیں عامیوں کی ہے جو اپنے رکشوں ، ویگنوں ،ٹرکوں اور ٹیکسیوں کے پیچھے ”پاک فوج کو سلام“ لکھ کر فخر محسوس کرتے ہیں اور یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ پاکستان کی آبادی اگر بیس کروڑ ہے تو پونے بیس کروڑ یہی”عامی“ ہی تو ہیں ۔
میرے کچھ مہربان میرے کالموں پر طنز و تعریض کے تیروں کی بوچھاڑ کرتے رہتے ہیں ۔بعض اوقات اُن کی طعنہ زنی نا قابلِ برداشت ہو جاتی ہے ۔اِس کے باوجود بھی میں نے ضبط کا دامن کبھی نہیں چھوڑا ۔کہا جاتا ہے کہ ہم ”بھاڑے کے ٹٹو “ اور قلم فروش ہیں۔اگر کسی سیاسی جماعت کی پالیسیوں سے اتفاق کرنا جُرم ہے تویہ جرم ہم سے سرزد ہوتا ہی رہے گا اِس لیے اپنے مہربانوں کی خدمت میں عرض ہے
ترے بے مہر کہنے سے وہ تُجھ پر مہرباں کیوں ہو
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.