
جعلی جمہوریت اور جعلی آمریت
پیر 9 فروری 2015

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
اُس زمانے میں وہ پرویزمشرف کے ہراقدام کی بھرپورتحسین کرتے نظرآئے ۔
تمام سیاسی جماعتوں نے مشرف کے ریفرنڈم کابائیکاٹ کیالیکن خاں صاحب نے بھرپور ساتھ دیا ۔گَڑبڑ تو 2002ء کے الیکشن کے بعدہوئی جب ”بے وفاڈکٹیٹر“ طوطاچشم نکلا۔خاں صاحب تونیا پاکستان بہت پہلے بناچکے ہوتے اگر پرویزمشرف خاں صاحب سے کیاگیا وعدہ وفاکرتے ہوئے اُنہیں وزیرِاعظم بنادیتے لیکن اُس ”جعلی آمر“نے تو کئی لوگوں سے وزارتِ عظمیٰ کا وعدہ کیاہواتھا مگر قرعہ فال نکلا ڈیرہ مرادجمالی کے میرظفراللہ جمالی کے نام ،جنکے بارے میں کسی نے سوچاتک نہ تھا ۔تب خاں صاحب کو سوفیصد یقین ہوگیا کہ یہ ڈکٹیٹرجعلی ہے ۔دوسری بار خاں صاحب کے ساتھ پھر”ہَتھ“ اُس وقت ہوا جب اُنہیں یقین دلادیا گیاکہ اِدھر وہ ڈی چوک اسلام آبادپہنچے اوراُدھر” اچھّے ڈکٹیٹر“کی انگلی کھڑی ہوئی ۔خاں صاحب تو حسبِ وعدہ بڑے طمطراق سے ڈی چوک پہنچے لیکن طویل انتظارکے باوجود ”انگلی“کھڑی نہ ہوسکی ۔اِس ”سانحے“کے بعدتو یہ خاں صاحب کا جزوِایمانی بَن گیاکہ پاکستان میں جمہوریت توجعلی تھی ہی ،ڈکٹیٹربھی جعلی ہی ہیں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان میں جمہورت جعلی ،آمریت جعلی ،الیکشن کمیشن جعلی ،نگران حکومتیں جعلی ،تحقیقاتی کمیشن جعلی ،عدلیہ جعلی اور سب سے بڑھ کرحکومت جعلی ۔ایسے میں یہ خاں صاحب ہی کی ہمت اورحوصلہ ہے کہ وہ اِن ”جعلی فضاوٴں“میں بذریعہ ڈی جے بٹ قوم کویہ پیغام دے رہے ہیں کہباطل سے ٹکراوٴ
مارو یا مر جاوٴ
اگر خاں صاحب یہ کہتے ہیں کہ پاکستانی جمہوریت جعلی ہے توکچھ غلط بھی نہیں کہتے کیونکہ پاکستان میںآ مریت اور جمہوریت میں بس نام ہی کافرق ہے ۔قوم کا واسطہ ہمیشہ ”جمہوری آمروں“سے پڑتارہا اِس کے باوجودبھی یہی سمجھا جاتارہا کہ ”بدترین جمہوریت ،بہترین آمریت سے بہترہے “لیکن آج خاں صاحب نے یہ انکشاف کرکے ہمیں ورطہٴ حیرت میں ڈال دیاکہ آمربھی جعلی ہوسکتاہے۔ہم اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ آمرصرف آمر ہوتاہے ،اصلی نہ نقلی۔ اِس لیے اگر خاں صاحب نے آمر پرویزمشرف کاساتھ اِس لیے دیاکہ وہ ”اچھّاڈکٹیٹر“تھا ،توغلط کیا۔ وزیرِاطلاعات ونشریات نے کپتان صاحب کے بیان کے بعد فرمایا”عمران خاں کشمیر ایشوپر بات کرنے کی بجائے اپنی جھوٹ اور فریب پرمبنی داستان لوگوں کو سنارہے ہیں ۔ریفرنڈم کے حامیوں کو آج بھی ڈکٹیٹریاد آرہے ہیں ۔خاں صاحب یومِ کشمیرپر بھی وزیرِاعظم کے خلاف دل کی بھڑاس نکالنے سے باز نہیںآ ئے ۔وہ نہ جانے کب ذاتیات سے باہر نکلیں گے“ ۔پرویزرشیدصاحب نے باقی باتیں تو بس ”ایویں ای “کی ہیں اصل بات وہ چھپاہی گئے ۔اُنہیں اصل غصّہ کپتان صاحب کے اِس بیان پرہے کہ ”نوازشریف اورزرداری اِس طرح ملے ہوئے ہیں جیسے بچھڑے ہوئے بھائی ہوں “۔اب پرویزرشیدصاحب کو کون سمجھائے کہ کپتان صاحب کے بھی ایک بھائی ہواکرتے تھے جو خاں صاحب کو ”بیچ منجدھار“ چھوڑکر کینیڈاسدھارگئے اور ہمارے کپتان اکیلے رہ گئے۔اب خاں صاحب جب بھی کسی کوگلے ملتا دیکھتے ہیں تو اُنہیں ”اپنے بھائی“کی یادستانے لگتی ہے ۔ میاں صاحب اورزرداری صاحب کی الفت ،محبت اور یگانگت کودیکھ کرخاں صاحب کا ”دُکھ“سمجھ میںآ تاہے اوربقول عبد الحمیدعدم
عدم اِن بے سہاروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.