
ایک خوشگوار تقریب
جمعہ 8 جنوری 2016

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
ڈاکٹرصاحب نے اپنے خطاب میں دھیمے لہجے میں اسلام میں خواتین کے کردارکا ذکرکرتے ہوئے عورت کی خودمختاری اور سوسائٹی میں باعزت مقام کو قُرآن وحدیث کی روشنی میں اجاگر کیا اور تاریخی حوالوں سے ثابت کیاکہ دینِ مبیں میں خواتین ہمیشہ علم وامن کے لیے کوشاں رہی ہیں ۔
اُنہوں نے دہشت گردی پر بھی سیرحاصل گفتگو کی اوردہشت گردی کے خاتمے کے لیے افواجِ پاکستان کی کاوشوں اورقربانیوں کوسراہا۔اُنہوں نے نئے ابھرنے والے ”داعش“ نامی فتنے کا بھی ذکر کیا جو تیزی سے عالمِ اسلام میں پھیل رہاہے اورجس کے تدارک کے لیے تاحال ٹھوس اقدامات سامنے نہیں آئے ۔دراصل یہ تقریب ڈاکٹر صاحب کے پچیس کتابوں پر مشتمل ”امن نصاب“ کی تعارفی تقریب تھی ۔ ڈاکٹر صاحب نے نسلِ نَو کے لیے دِلی درد کے ساتھ سیاسی آلائشوں سے پاک ایسا ” امن نصاب “ مرتب کیا جوارضِ وطن میں امن کی فضاء قائم کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوسکتا ہے ۔ڈاکٹر صاحب کی سیاست اوراندازِسیاست سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن اُنہوں نے جس محنت اورعرق ریزی سے یہ نصاب مرتب کیاہے ،اُس سے اختلاف کی گنجائش نہیں ۔اگر ہمارے حکمران سیاسی مصلحتوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ملک و قوم کی بہتری کی خاطر ”امن نصاب “ کونافذ کر دیں تو ہمارے خیال میں ملک نہ صرف امن کا گَہوارہ بن سکتا ہے بلکہ دہشت گردی اور انتہا پسندی سے بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹکارا مِل سکتا ہے۔مگرسلگتا ہواسوال تو یہ کہ اِس ” امن نصاب “ کا نفاذ ممکن کیسے ہو گاجبکہ ہمارے ہاں تولبرل اورسیکولر دانشوروں کا”دبستاں“ کھلا ہوا ہے اورنصابِ امن دینِ مبیں کے تابع۔ ہمارے لبرل اورسیکولر دانشور ”لبرل پاکستان“ کی حمایت میں اپنی تمام توانائیاں صرف کرتے ہوئے دھڑادھڑ کالم لکھ رہے ہیں ۔وزیرِاعظم صاحب نے ”لبرل پاکستان“ کاذکر کیاچھیڑا ،گویا دبستاں کھُل گیا اورسیکولر دانشوروں کی چاندی ہوگئی ۔وزیرِاعظم صاحب کی ”لبرل“ سے مراد تو شاید اخوت ومحبت اوررواداری ہوگی جو عین اسلام ہے لیکن سیکولردانشور اسے کوئی اورہی معنی پہناتے ہوئے” شخصی آزادی“ کے نام پرمادرپدر آزاد معاشرے کی تشکیل پرزور دیتے نظرآ رہے ہیں اوراب تواُن کے کالموں میں کھلم کھلا شراب وشباب کی باتیں بھی لکھی جانے لگی ہیں ۔ہم شاید بھول چکے کہ حضرت قائدِاعظم نے زمین کا یہ ٹکڑا ”اسلام کی تجربہ گاہ “ کے طور پر حاصل کیا تھا اور آئینِ پاکستان کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل نے سات سالوں میں تمام قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنا تھا ۔ مگر آج 42 سال گزرنے کے باوجود بھی ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں بلکہ پہلے سے بھی بدتر ،البتہ اتنی ترقی ضرورہوئی کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اورایک معزز رکن باہم دست وگریباں نظرآئے ۔میرادین تو اخوت ومحبت اوررواداری کادرس دیتاہے ،پھر پتہ نہیں ہم نے اسلامی نظریاتی کونسل کی باگ ڈورکیوں اور کیسے ایسے لوگوں کے سپردکر دی جنہیں اسلام کے اِس بنیادی اصول کابھی ادراک نہیں ۔
ہر کوئی جانتا ہے کہ پاکستان میں آج بھی ایک قابلِ ذکر طبقہ ایساہے جو طالبان نامی دہشت گردوں کا حامی ہے ۔ یہ الگ بات کہ فی الحال یہ لوگ مصلحتوں کی ”بُکل “ مارے بیٹھے ہیں لیکن اُن کے دِلوں کی دھڑکن اب بھی طالبان کا نام سنتے ہی تیزہو جاتی ہے ۔ اب یہ لوگ داعش نامی نئے فتنے کی طرف رجوع کر رہے ہیں اورشنید ہے کہ پاکستان میں داعش کے لیے دھڑادھڑ بھرتیاں بھی ہورہی ہیں لیکن حکمران تاحال پاکستان میں داعش کے وجود سے انکاری۔ جب حکمران طالبان نامی دہشت گردوں سے مذاکرات کی تگ و دَو میں تھے ، تب بھی میں نے مذاکرات کے خلاف کالم لکھے کیونکہ میراخیال تھا کہ
بدل سکے گا نہ سیدھے ہاتھوں وہ اپنے انداز دیکھ لینا
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.