
قصّہ ایک پاسپورٹ کا
جمعہ 11 نومبر 2016

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
گھر سے نکلتے وقت ہم نے دَس دفعہ اپنے شناختی کارڈ کی موجودگی کو یقینی بنایا اور پھر ماڈل ٹاوٴن کی طرف عازمِ سفر ہوئے ۔
پاسپورٹ آفس سے باہر نکل کر ہم ایبک روڈ کی طرف عازمِ سفر ہوئے ۔ اِس پورے راستے میں میرے میاں حکمرانوں کے خلاف زہر ہی اگلتے رہے ۔ بات اُن کی بھی درست تھی کہ جب نیشنل بینک حکومتِ پاکستان کا ہے اور اس میں جمع کروائی گئی فیس بھی حکومتی خزانے ہی میں جاتی ہے تو پھر نیشنل بینک کی کسی بھی برانچ میں فیس کیوں نہیں جمع کروائی جا سکتی ۔ صرف اُسی مخصوص برانچ میں ہی کیوں جو پاسپورٹ آفس کے ساتھ ہے؟۔ کیا حکمرانوں کا مقصد عوام کو تنگ کرنا ہی رہ گیا ہے؟۔ کیا ساری سہولیات اشرافیہ کے لیے ہی ہیں، عامیوں کے لیے کچھ بھی نہیں؟۔ دوسری بات یہ کہ جب ہم پاکستانی ہیں اور پورا ملک ہمارا وطن تو پھر علاقوں کی تقسیم کیوں؟۔ ہم کسی بھی جگہ سے اپنا پاسپورٹ کیوں نہیں بنوا سکتے؟۔ میاں دِل کے پھپھولے پھوڑتے رہے اور ہم خاموشی سے اُن کی ”تقریرِ دِلپذیر سنتے“ رہے۔اِس کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ ہمیں پتہ ہی نہ چلا کہ کب دوسرا پاسپورٹ آفس بھی آگیا۔
پاسپورٹ آفس کے قریب پہنچ کر پتہ چلا کہ وہاں تو کوئی کار پارکنگ ہی نہیں۔ کافی دیر ”خجل خواری“ کے بعد ایک سینما گھر کی پارکنگ میں گاڑی پارک کرکے جب ہم نے پاسپورٹ آفس کی طویل گلی میں قدم رنجہ فرمایا تو ہمیں حشرات الارض کی طرح اِدھر اُدھر رینگتے ایجنٹوں نے گھیر لیا ۔ ہر کوئی ہمیں پاسپورٹ آفس میں داخلے کے آسان طریقے بتانے لگا لیکن ہم نے کسی کی بات پہ کان نہیں دھرا اور پاسپورٹ آفس کی طرف رواں رہے ۔ پاسپورٹ آفس پہنچ کر آفس کے باہر ہی قطار اندر قطار مردوزَن کو دیکھ کر ہم ہمت ہار بیٹھے ۔ وہیں اِدھر اُدھر گھومنے والے ایک ایجنٹ نے کہا کہ وہ ہمیں پچھلے دروازے سے اندر داخل کروا سکتا ہے جہاں سے ہم سیدھے ٹوکن والی جگہ پر پہنچ جائیں گے لیکن اِس کے لیے جیب ڈھیلی کرنی پڑے گی ۔ ”مرتا کیا نہ کرتا“ کے مصداق ہم نے سودا طے کیا۔ پھر اُس نے ہمارے ہاتھ میں دو پرچیاں تھما کر کہا کہ وہ سامنے والے دروازے میں کھڑے گارڈ کو دے دیں، باقی کام اُس کا ۔گارڈ کے ہاتھ میں ”پرچیاں“ تھماتے ہی پچھلا دروازہ ہمارے لیے کھُل گیا۔ تب ہمیں پتہ چلا کہ” بیک ڈورچینل“ کسے کہتے ہیں۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ یہ حربہ صرف حکمرانوں کے لیے ہے لیکن پتہ چلا کہ یہاں تو ہر کوئی یہی حربہ آزما رہا ہے۔ پچھلی راہداری سے ہوتے ہوئے جب ہم مطلوبہ ہال میں پہنچے تو ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے ، وہاں بیٹھنا تو کجا ، کھڑے ہونے کے لیے بھی جگہ نہ تھی۔ ایک چھوٹے سے ہال میں مرد وزَن بِلا امتیاز گھسے ہوئے تھے اور کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اِدھر اُدھر سے پتہ کرنے کے بعد لگ بھگ ایک گھنٹے میں ہم فوٹو اتروانے اور ٹوکن لینے میں کامیاب ہوئے تو حکم ملا کہ کاوٴنٹر نمبر 2 پر چلے جائیں۔ ہم نے عرض کیا کہ یہاں تو” محمود و ایاز“ایک ہوئے پڑے ہیں ، پھر کاوٴنٹر نمبر 2 کا کیسے پتہ چلے گا جب کہ وہاں کسی بھی کاوٴنٹر کی نشاندہی کا کوئی بورڈ ہے نہ تختی ؟۔ فرمایا گیا کہ مجمعے میں گھُس جائیں خود ہی پہنچ جائیں گے ۔ اُسی ہال میں کاوٴنٹر نمبر 2 بھی تھا اور وہ بھی ہمارے بالکل سامنے لیکن وہاں پہنچتے پہنچتے بھی دَس منٹ لگے ۔ وہاں ہمارے انگوٹھوں اور انگلیوں کے نشانات لیے گئے اور کاوٴنٹر نمبر 3 پر جانے کا حکم صادر ہوا۔ ہم چونکہ اتنی دیر میں ہال سے مکمل طور پر واقفیت حاصل کر چکے تھے اِ س لیے سیدھے کاوٴنٹر نمبر 3 پر جا پہنچے جہاں کھڑکی توڑ رَش جاری تھا۔ وہاں جا کر تو ہمارے چودہ کیا سارے ہی طبق روشن ہوگئے ۔ ہمیں بتایا گیا کہ کم از کم ڈیڑھ گھنٹے بعد ہماری باری آئے گی ۔ ہم پہلے بھی عرض کر چکے کہ ہال میں تو کھڑے ہونے کی گنجائش بھی نہیں تھی ، پھر بھلایہ وقت کیسے گزرتا۔ہمارے لیے وہ ڈیڑھ گھنٹہ اتنا ہی مشکل ہو گیا جتنا کپتان کے لیے مسندِ اقتدار تک پہنچنا۔ صبح سے ناشتہ کیے بغیر گھر سے نکلے تھے کہ جلدی جلدی پاسپورٹ بنوا لیں ، اب ایک بجنے کو تھا اور ہمارے پیٹ میں چوہے ، بلیاں ، سبھی دَوڑ رہے تھے لیکن وہاں تو پانی تک دستیاب نہ تھا۔ کبھی ایک ٹانگ اور کبھی دوسری ٹانگ پر اپنے جسم کا بوجھ ڈالتے ہم نے وہ ڈیڑھ گھنٹہ کیسے گزارا ، یہ ہم ہی جانتے ہیں۔
ہم تو سمجھتے رہے کہ یہ آخری کاوٴنٹر ہے جس کے بعد ہماری جان چھوٹ جائے گی لیکن وہاں ہمیں ایک کمپیوٹرائزڈ فارم تھما کر کاوٴنٹر نمبر 4 پر جانے کے لیے کہا گیا۔ ہم نے ہال میں چاروں طرف نظر دوڑائی لیکن متعلقہ کاوٴنٹر کہیں دکھائی نہیں دیا۔ ویسے بھی ہم سارے کاوٴنٹر تو بھگتا چکے تھے ، پھر یہ ”مُوا“ کاوٴنٹر نمبر 4 کہاں سے نکل آیا ؟۔ ایک مہربان نے ہماری پریشانی کو بھانپتے ہوئے کہا کہ راہداری کے دوسرے سرے پر چلے جائیں ، وہیں پر فارم جمع ہوں گے ۔ جب ہم وہاں پہنچے تو یہ دیکھ کر جان میں جان آئی کہ وہاں بیٹھنے کے لیے جگہ میسر تھی ۔ لَگ بھگ ایک گھنٹہ بعد ہم نے فارم جمع کروائے اور پاسپورٹ آفس سے باہر نکل کر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ ہم زندہ سلامت لوٹ آئے۔
اگلے دِن ہمیں ڈی جی پاسپورٹ کی جانب سے ایک میسیج موصول ہوا ، جس میں لکھا تھا” آپ نے لاہور آفس سے پاسپورٹ اپلائی کیا۔ کیا آپ کو دشواری ہوئی یا کسی نے آپ سے پیسے مانگے؟“۔ اب ”کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا“۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.