
لہو ، لہو کشمیر
اتوار 29 اکتوبر 2017

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
1947ء میں جموں و کشمیر کی کل آبادی کا 84 فیصد مسلمانوں پر مشتمل تھا۔
فوجیں اتارنے کے بعد بھارت نے آبادی کا تناسب بدلنے کی مذموم کوششیں شروع کر دیں اور نہتے کشمیری مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنی شروع کی۔ لاکھوں شہید ہوئے اور ہزاروں عفت مآب بیٹیوں کے عصمت دری کی گئی۔ چنگیزیت کے علم بردار وحشی درندوں نے وحشت ودرندگی کا ایسا ننگا ناچ رچایا کہ انسانیت بھی مُنہ چھپانے لگی لیکن کشمیریوں کے جذبہٴ حریت میں کوئی کمی نہ آئی ۔ 1948ء میں کشمیری مجاہدین اور فاٹا کے پختونوں نے شجاعت کی داستانیں رقم کرتے ہوئے سری نگر کو گھیرے میں لے لیااور قریب تھا کہ وہ سری نگر پر قابض ہو جاتے لیکن ”بھارتی بنیا“ امن اور شانتی کی دہائی دیتا اقوامِ متحدہ پہنچ گیاجہاں کشمیریوں کے استصواب رائے کا حق تسلیم کر آیا۔ چونکہ بھارت کی نیت میں تو پہلے دن سے ہی کھوٹ تھااور اُس کا بنیادی مقصد وقت حاصل کرکے آبادیات کا تناسب تبدیل کرنا تھااِس لیے اُس نے مقبوضہ کشمیر میں چھیڑ چھاڑ جاری رکھی جو 1965ء کی جنگ پر منتج ہوئی۔
بھارت ،کشمیریوں کے استصواب رائے کو نہ کل تسلیم کرتا تھا،نہ آج تسلیم کرتا ہے۔ آج بھی اُس کا مقصد آبادیات کے تناسب کو تبدیل کرنا ہے جس کے لیے وہ کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیل رہا ہے ۔ 8 جولائی 2016ء کو برہان وانی کی شہادت کے بعد آزادی کی تڑپ میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے اورجنگِ آزادی کی کمان نوجوانوں کے ہاتھ میںآ چکی ہے جو ”ابھی یا کبھی نہیں“ پر عمل پیرا ہو کر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ یہ نوجوان مذاکرات کی میز پر آنے کو تیار نہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مذاکرات کے ڈھونگ نے ہی اُن کے سات عشرے ضائع کر دیئے۔ ”تنگ آمد ،بجنگ آمد “ کے مصداق نوجوانوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور بھی بھارت ہی نے کیا ہے۔
بائیس سالہ برہان مظفر وانی سوشل میڈیا پر ”ٹائیگر وانی“ کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا تھا۔ 2010ء کو برہان وانی کا بڑا بھائی خالد مظفروانی اپنے دوست کے ساتھ موٹر سائیکل پر جا رہا تھا کہ سپیشل پولیس کے اہلکاروں نے اُسے پکڑ لیا اور دورانِ تفتیش اُس پر اتنا تشدد کیا کہ وہ بیہوش ہوگیا۔ اُس وقت برہان مظفر میٹرک کا طالب علم تھا۔ اُسے اپنے بھائی پر تشدد کا اتنا دُکھ پہنچا کہ وہ گھر سے فرار ہو کر حزب المجاہدین میں شامل ہوگیا۔ 14 اپریل 2015 ء کو خالد مظفر وانی گھر سے نکلا اور پھر اُس کی لاش ہی گھر واپس آئی۔ سکیورٹی فورسز کا کہنا تھا کہ خالد مظفر مقابلے میں مارا گیا لیکن اُس کے جسم پر گولی کا کوئی نشان نہیں تھاالبتہ جب اُس کی لاش کو غسل دیا جانے لگا تو اُس کے پورے جسم پر تشدد کے بیشمار نشانات پائے گئے۔بائیس سالہ ہونہار اور پوزیشن ہولڈر برہان وانی کو چنگیزیت کے جا بجا بکھرے ہوئے ایسے ہی نظاروں نے علمِ بغاوت پر مجبور کیا لیکن اُس نے کبھی ہتھیار نہیں اٹھایا۔ وہ سوشل میڈیا پر آزادی کی تحریک جاری رکھے ہوئے تھا۔ وہ اور اُس کے ساتھی اقوامِ عالم کو بھارت کا مکروہ چہرہ دکھانے کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر بھارتی مظالم کی ویڈیوز بناتے اور پھر اُسے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ پر اَپ لوڈ کر دیتے۔ پوری زندگی میں برہان وانی نے ایک گولی بھی نہیں چلائی لیکن پھر بھی وادی کی تاریخ میں اتنی مقبولیت کسی کے حصّے میں نہیں آئی جتنی اُس کوملی۔
8 جولائی 2016ء کو اننت ناگ کے علاقے میں برہان وانی اپنے ساتھیوں سمیت فاروق وانی کے گھر میں موجود تھا کہ سکیورٹی فورسز نے اُسے تین ساتھیوں سمیت شہید کر دیا۔ برہان وانی کی شہادت کی خبر سنتے ہی وادی میں احتجاج کی آگ بھڑک اُٹھی اور لوگ گھروں سے باہر نکل آئے۔ تب سے اب تک سینکڑوں شہید ہو چکے اور اسرائیل سے درآمد شدہ پیلٹ گنوں کا شکار ہو کر ہزاروں اندھے۔ وانی کے جنازے میں دو لاکھ سے زائد کشمیریوں نے شرکت کی اور اُس کی چالیس مرتبہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ وانی کے جنازے میں لوگ یہ کہتے پائے گئے ” بھارت یہ نہ سمجھے کہ اُس نے وانی کو ختم کر دیا۔ اِس ایک وانی نے ہزاروں وانی پیدا کر دیئے ہیں جو ظلم وستم کے خلاف اُس وقت تک جہاد کریں گے ،جب تک سانس کی ڈور سلامت ہے“۔ برہان وانی کے والد مظفر وانی نے ایک مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”میں نے اپنے دو بیٹے آزادی کی نذر کر دیئے ،اب اکلوتی بیٹی بھی آزادی کے لیے وقف کرنے آیا ہوں“۔ بھارت نواز عمر عبداللہ نے کہا” زندہ برہان وانی سے قبر میں لیٹا برہان وانی زیادہ خطرناک ثابت ہوگا۔ یہاں اگر وہ فیس بُک وال استعمال کرتا تھا تو قبر کی ”وال“ اِس مقصد کے لیے خود بخود استعمال ہونے لگی ہے“۔
برہان وانی کی شہادت سے اب تک آزادی کی تحریک میں دِن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اب تو اِس مسلٴے کے حل کے لیے بھارت سے بھی آوازیں اُٹھنے لگی ہیں لیکن نریندر مودی جیسے درندوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اب بھارت ایک طرف تو سرحدوں پر محدود جنگ جاری رکھے ہوئے ہے جس کا افواجِ پاکستان مُنہ توڑ جواب دے رہی ہے جبکہ دوسری طرف افغانستان کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کی مذموم کوششیں کر رہا ہے۔ مقصد اُس کا صرف یہ کہ مقبوضہ کشمیر میں روزافزوں تحریکِ آزادی سے اقوامِ عالم کی توجہ ہٹا کر یہ ثابت کیا جا سکے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہا ہے لیکن آزادی کی اِس نئی لہر کے آگے بند باندھنا اب ممکن نہیں رہا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.