فکرِ حسین رضی اللہ عنہ کیا ہے؟

جمعہ 28 اگست 2020

Qazi Zain Ul Abideen

قاضی زین العابدین

دورِ فتن میں قاضیٓ کوئی صدا یہ سن لے،
 دردِ حسین رض کیا ہے؟ فکرِ حسین رض کیا ہے؟
 واقعہء کربلا حق و باطل کا تاریخِ انسانیت میں وہ نا قابلِ فراموش معرکہ ہے جسے کوئی بھی صاحبِ شعور انسان نظر انداز نہیں کر سکتا۔سانحہ کربلا کے بارے میں اہلِ اسلام کا بچہ بچہ بخوبی علم رکھتا ہے ظلم و ستم کی وہ طویل داستاں جس میں یزید اور آل رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے دشمنوں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور انکے ساتھی افراد کو شہید کیا، تاریخ میں مستند اسناد سے محفوظ کی گئی ہے. سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے دین حق اور خلافت اسلامیہ کی بقا کی خاطر یزیدی باطل لشکر کے مقابلے میں بہادری سے میدان میں اترے اپنا سر کٹا دیا مگر قیامت تک آنے والے اہلِ اسلام کے لیے یہ پیغام چھوڑ گئے کہ جہاں بھی نظامِ اسلام اور حق کے خلاف کوئی ظالم یزیدی بن کر سر اٹھائے گا تو حق پر قائم مردِ مومن حسینی بن کر اس کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرے گا اور اپنی جان کی بازی لگا دے گا مگر باطل کے سامنے سر جھکانا گوارا نہیں کرے گا۔

(جاری ہے)


 سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو اہلِ عراق نے خطوط کے ذریعے دعوت دی کہ کوفہ تشریف لائیں اور انکی بیعت کر لیں۔ بدلتے حالات میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے عزیمت کا راستہ اپنایا۔پھر وہ المناک معرکہ پیش آیا جس میں ایک جانب چند اہلِ حق تھے اور دوسری طرف حوس کے غلام ہزاروں کا لشکر۔واقعاتِ کربلا تفصیلی ہیں مختصرا عرض کرتا چلوں کہ دس محرم کے روز ظہر اور عصر کے درمیان آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔

آپ کے قاتل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شمر بن ذالجوشن تھا جبکہ یہ رائے بھی بیان کی جاتی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کو قبیلہ مذحج کے ایک بدبخت شخص نے شہید کیا یہ رائے امام ابن کثیر نے البدایہ والنہایئہ میں دی(ج8,ص188)
قارئین محترم آج واقعہ کربلا تو بڑے زور و شور سے بیان کیا جا رہا ہے مگر اسلام میں اس کی اصل اہمیت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

شہادت حسین رضی اللہ عنہ کو تو بیان کیا جا رہا ہے ظلم و ستم کی داستاں تو سنائی جا رہی ہے مگر فکرِ حسین رضی اللہ عنہ کیا تھی؟ یہ موضوع بہت کم کہیں پڑھنے یا سننے کو ملتا ہے۔
 اسلام میں اس الم ناک واقعہ کی اصل اہمیت یہ ہے کہ اسلام کا نظامِ خلافت اور اسلام کا نفاذ اتنا قیمتی اثاثہ ہے کہ اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دی جا سکتی ہے۔ آمریت و ملوکیت اور استبداد و ظلم، اسلام مخالف نظام کے خلاف جدوجہد کرنا اور حق کے قیام کی خاطر لڑنا تقاضائے ایمانی ہے۔


 قارئین محترم! آئیے آج ان حقائق پر نظر ڈالتے ہیں کہ جن کی بنیاد پر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ یزید کے خلاف میدان میں اترے۔ کیا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو نعوذ بااللہ اقتدار ,اختیار اور سلطنت غرض و غایت تھی؟اگر یہ مقصود ہوتا تو فقط بہتر(72) افراد کی جماعت لے کر یزیدی سلطنت کی طرف رخ نہ کرتے۔ مومن کی تلوار ہمیشہ دین کی سر بلندی کے لیے اٹھا کرتی ہے نہ کہ اپنا مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔

بقول اقبال
 تیغبھر عزت دین است و بس
مقصد او حفظ آئین است و بس
واقعہ کربلا کا تنقیدی جائزہ لیں تو فکر حسین رضی اللہ عنہ سمجھ میں آتی ہے۔ فکر حسین رضی اللہ عنہ یہ تھی کہ اسلامی حکومت قائم رہے نفاذِ اسلام ہو اور دینِ محمد رسول اللہ کا غلبہ رہے۔ مگر اس کے برعکس فکرِ یزید یہ تھی کہ اسلامی خلافت ملوکیت میں بدل جائے اسلامی قانون حکمراں کے لیے نہیں بلکہ عوام کے لیے رہ جائے۔

تاریخِ اسلام میں یزیدی نظام وہ پہلا نظامِ حکومت تھا جس نے اسلامی خلافت کا خاتمہ کیا اور ملوکیت کا آغاز ہوا۔
حسین ابن علی رض کا مؤقف اس لحاظ سے حق پر مبنی تھا کہ انھوں نے ملوکیت کا راستہ روکا اور احیائے خلافت کے لیے سر بکف اٹھے۔ دینِ اسلام نے تو انسانیت کو نظامِ خلافت عطا کیا تھا نہ کہ نظامِ ملوکیت۔ اسلام میں آمرانہ نظام کو نہیں بلکہ مشاورتی فیصلوں کو اہمیت حاصل ہے۔


یزیدی نظام حکومت میں ایسی بے شمار خرابیاں تھیں جو کہ نہ صرف اسلام کے منافی تھیں بلکہ حقیقت میں اس نظام نے اسلام کی جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ یزید کے نظام حکومت میں سودی نظام پروان چڑھا جس سے امیر ، امیر سے امیر تر اور غریب، غریب سے غریب تر ہوتا چلا گیا۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا یزید کے ہاتھ پہ بیعت نہ کرنے کی ایک وجہ یزید کا کردار تھا۔

قارئین محترم! میں یہ حقیقت واضح کرتا چلوں کہ یزید جیسے فرد کے بارے میں، جس کے متعلق اس دور کے زندہ صحابہ رض کی ایک کثیر تعداد کے خیالات و ملفوظات غیر مبہم انداز میں بتائے گئے کہ وہ انتہائی نا پسندیدہ کردار ہے، نرم گوشہ رکھنا بہت بڑی جسارت اور ناانصافی ہے۔ ایک طرف وہ ہستی کہ جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے جنت کے نوجوانوں کا سردار ہونے کی بشارت دی اور اپنا محبوب قرار دیا اس کے مقابل یزید جیسے بدعمل، مستبد اور قاتل کو ترجیح دینا بہت بڑا جرم ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ حدیث کافی واضح ہے کہ قیامت کے دن ہر شخص اس کے ساتھ کھڑا ھو گا جس کے ساتھ اس نے محبت کی۔(صحیح البخاری کتاب الأدب باب علامتہ حب اللہ عزوجل حدیث نمبر 5702)
بہرحال مورخین نے تاریخ میں یزیدی ظلم و ستم، اسلام مخالف پالیسیاں سب درج کر کے واضح کیا کہ یزید نے اسلامی نظام کی جڑ کاٹ کر رکھ دی تھی۔
 ہم واقعہ کربلا کو حالیہ تناظر میں دیکھیں تو ایک شعور رکھنے والا آسانی سے جان سکتا ہے کہ فکرِ حسین رضی اللہ عنہ کیا تھی اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔

آج عالمِ اسلام میں کہیں بھی نظامِ خلافت نظر نہیں آتا . مسلم ریاست کے شہری ہونے کے ناطے ہمارے ذہنوں میں یہ سوال ضرور پیدا ہونا چاہیئے کہ اسلام اور کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے نام پر حاصل کیے جانے والے ملک میں کون سا نظام حکومت رائج ہے؟ ہماری پالیسیاں کیا ہیں؟ہمارا کردا کیا ہے؟کربلا کے بعد تو حق والے کو حسینی اور اہلِ باطل کو یزیدی کہتے ہیں۔

آج کیا ہماری فکر اور سوچ حسینی ہے؟ ہم تو دعوی حسینی ہونے کا رکھتے ہیں اور ہمارا عمل اور کردار یزیدی فکر کو تقویت دے رہا ہے۔
حسینیت کا تقاضا یہ ہے کہ اسلام مخالف نظام کے خلاف مردِ مومن حسینی بن کر میدان میں کھڑے ہو جاؤ۔ جہاں قتلِ عام ہو رہا ہو جہاں اسلام کو خطرہ ہو ظالم بادشاہ یا حکمران کے خلاف ڈٹ جاؤ یہاں تک کہ وہ بے نقاب ہو جائے اور ذلیل و رسوا ہو جائے۔

آج ہم سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو سلام تو پیش کرتے ہیں مگر حسینی کردار ہمارے اندر کیوں نہیں آ رہا۔جب ہمارے اندر قوتِ ایمانی دم توڑ جائے تو پھر یہی حال ہوا کرتا ہے۔ پھر دعوی حسینیت کا مگر عقل ہوس کی غلام ہوتی ہے. آج کیا عالمِ اسلام میں کوئی حسینی منہج پہ کھڑا ہے؟ آج تو ہمارے مسلمان مودی کو ایوارڈ دے رہے ہیں جس نے کشمیر میں کربلا کا میدان سجا رکھا ہے۔

آج عرب دنیا اسرائیل کو تسلیم کر رہی ہے۔ آخر سوال یہ ہے کہ یزیدیت کہتے کسے ہیں؟ مگر یاد رکھئے کہ ہر دور میں حسینی بھی ہے اور یزیدی بھی۔ہر دور میں حسینی یزید کے مقابل میدان میں اترتا ہے۔
قارئین محترم! وہ کون سی طاقت تھی جس نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو یزید جیسے ظالم کے مقابل لایا؟ وہ طاقت عشق کی طاقت تھی. یہی عشق کی قوت ہے جو مردِ مومن کو کبھی غیر اللہ کے آگے سر جھکانے نہیں دیتی۔


بقول اقبالٓ
ما سوا اللہ را مسلمان بندہ نسبت
پیش فرعونی سرش افگندہ نسبت
امام حسین رضی اللہ عنہ حق و صداقت کا ترازو ہیں۔ ہر دور میں حسینیت اور یزیدیت دو طاقتیں آمنے سامنے رہی ہیں۔
بقول اقبالٓ
موسی و فرعون و شبیر و یزید
ایں دو قوت از حیات آمد پدید
 قارئین محترم! یہ واقعہء کربلا کے چند انقلابی پہلو ہیں جو ایک مردِ مومن کے دل کے اندر ہل چل سی مچا دیتے ہیں یوں اس کا جذبہء ایمان مانند شرر فشاں بیدار ہوتا ہے اور وہ حسینی بن کر وقت کے یزید کے مقابل اٹھ کھڑا ہوتا ہے کیونکہ ہر دور کو ایک حسین چاہیئے ہوتا ہے! جس دور میں عدل، مساوات اور امن ناپید ہو جائے تو وہ دور حسین کا منتظر رہتا ہے۔

آج کا دور بھی حسین کا منتظر ہے کیونکہ اسلام کی بقا فکرِ حسین میں ہے۔آخر میں حضرت امیر محمد اکرم اعوان رحمتہ اللہ علیہ کے وہ اشعار پیش کر رہا ہوں جو "پیغام_کربلا" کا عنوان رکھتے ہیں۔
ہر روپ میں،ہر سمت ہی کرب و بلا ہے
اس آس پہ زندہ ہیں کہ عباس رض ولی دے
ہے لشکر کوفی تو آمادہء پیکار
دے ہم کو خدایا تو حسین ابن علی رض دے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :