”پاکستان اور ریاستِ مدینہ“

منگل 10 دسمبر 2019

Qazi Zain Ul Abideen

قاضی زین العابدین

صبحِ صادق مجھے مطلوب ھے کس سے مانگوں
تم تو بھولے ھو چراغوں سے بہل جاؤ گے
بانٸ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح  سے کسی نے یہ سوال کیا کہ اس ریاست پاکستان میں قانون سازی کیسے ھو گی تو قائد نے جواب میں فرمایا تھا کہ پاکستان کی قانون سازی چودہ سو سال پہلے قرآن و سنت کی روشنی میں ھو چکی اب کس کی علیحدہ سے قانون سازی کی ضرورت نہیں۔

قائد کے اس جواب سے قیامِ پاکستان کا مقصد واضح ھو جاتا ھے۔ ریاستِ مدینہ کے بعد پاکستان وہ واحد ریاست ھے جو اسلام کے نام پہ قائم کی گئی جہاں معاشرت، سیاست، معیشت، عدالت اور نظام تعلیم نیز ھر وہ پہلو جو ریاست سے متعلق ھو، اسلامی اصولوں کے مطابق ھونا تھا۔مگر  افسوس کا مقام یہ ھے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک صورتحال دیکھ کر کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ یہ وہی ریاست ھے جسے اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

یہ بیان کرتے دل خون کے آنسو روتا ھے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک جو بھی اس ریاست میں حکمران آۓ تقریبا سب نے ھی شریعتِ محمدی اور نفاذِ اسلام کے دعوے کیے اور یہ صرف دعوے کی حد تک ھی رھے۔ نہ جانے وہ شریعت محمدی اور نفاذِ اسلام سے کیا مراد لیتے تھے۔بہرحال دورِ حاضر کے وزیراعظم عمران خان صاحب نے تو واضح طور پہ ”ریاستِ مدینہ“ کا نام لے لیا اب آنے والا وقت بتاۓ گا کہ وہ ریاستِ مدینہ سے کیا مراد لے رھے ھیں۔


           قیامِ پاکستان سے اب تک اس ریاست کے مختلف پہلوؤں پہ روشنی ڈالیں تو  طویل داستانوں پہ مشتمل باب کا آغاز ھوتا ھے جسے ایک وہ شخص جو بانئ پاکستان کے نظریے  اور اسلامی نظام اور اصولوں سے بخوبی واقف ھو,پڑھتے پڑھتے اشکبار آنکھیں اور غمزدہ دل لیے کچھ لمحات کے لیے پریشان ھو جاتا ھے۔ مگر اچانک  اس کے دل میں ایمانی قوت ایک ہل چل سی مچا دیتی ھے جو اللہ کے نام کی ضرب سے جاگ جاتی ھے اور آخرکار اسے اطمینان کی  کیفیت میں لے آتی ھے چنانچہ وہ اللہ پہ بھروسہ کرتے ھوۓ پھر سے امید کا دامن تھام لیتا ھے۔

تاریخ ایسے بے شمار سیاہ اوراق سے بھری پڑی ھے جن میں اسلام کا نام استعمال کیا گیا مگر اسلام کے نام پہ کافرانہ نظام کا نفاذ قائم رھا۔ آج کوئی بھی اطمینان سے یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ پاکستان میں ایک انچ جگہ پر بھی اجتماعی طور پہ اسلام نافذ ھے۔  غرض یہ کہ جہاں تک نفاذِ شریعت کی بات ھے یہ ریاست اپنے مقاصد کے حصول میں بری طرح ناکام ھوئی ھے۔


سب سے پہلے اس ملک کی سیاست کو اسلام کے میزان میں دیکھیں تو یہاں پہ جو جمہوریت قائم نظر آتی ھے اس کا کہیں بھی اسلام میں تصور موجود نہیں۔ اسلام ھمیشہ صاحب الراۓ کی بات کرتا ھے اور اھلِ علم کو جاھل پہ فوقیت دیتا ھے جبکہ اس جمہوریت  ستر صاحب الراۓ یعنی اھلِ علم پہ اکہتر انگوٹھا ٹیک یعنی جاھل کو فوقیت حاصل ھے گویا ایک صاحب الراۓ اور ایک جاھل کی راۓ برابر ھے۔

بے شمار دینی قوتیں جنہوں نے نفاذِ اسلام کی کوششیں کی وہ بری طرح ناکام ھوئیں اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ برصغیر سے انگریز کے جانے کے بعد انھوں نے اسی انگریز کے قائم کردہ نظام میں رہ کر یا شامل ھو کر نفاذِ اسلام کی کوششیں کی یوں اس نظام کو اور تقویت مل گئی جبکہ انھیں اس کے برعکس ایک اسلامی نظام متعارف کروانا چاہیۓ تھا۔ اسلام نے  تو سیاست کو بڑی واضح انداز میں پیش کیا۔

نبٸ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات ھمارے لیے مشعلِ راہ ھیں انکی ہستی ھر پہلو کا احاطہ کیے ھوئے ھے۔
اس ریاست کا معاشی نظام مغربی نظام کی طرح سود پہ چل رھا ھے جس کی اسلام میں سختی سے ممانعت آئی ھے حتی کہ سود کے استعمال کو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ اعلانِ جنگ قرار دیا گیا۔ اس سودی نظام سے امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ھوتا جا رھا ھے اور قوم مختلف طبقات میں بٹ کر رہ گئی جبکہ ریاستِ مدینہ کے امیر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے تو اس طبقاتی نظام کا خاتمہ کیا تھا بقول فاروق حسین صابر
طبقات کے ڈھانچے کی بنیاد گرا کے پھر
انسانوں کو وحدت کی ترکیب بتائی ھے
جہاں تک اس ملک کے نظام تعلیم کی بات ھے یہ کسی مسلمان کا نہیں بلکہ ایک انگریز لارڈ میکالے کا بنایا ھوا نظام ھے جس نے یہ نظام متعارف کروانے کے بعد برصغیر سے واپسی پہ اپنے بڑوں کو آگاہ کیا کہ میں ایسا نظام دے کر آیا ھوں کہ کئی سال یہ ھمارے غلام رہیں گے۔

ریاستِ مدینہ کا نظامِ تعلیم تو کسی انگریز کا نہیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا بنایا گیا نظام ھے۔ اسلام جہاں مذہبی تعلیم پہ زور دیتا ھے وھیں دنیاوی علوم کو بھی ضروری قرار دیتا ھے فرمایا کہ علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے۔ اس سے دنیاوی علم کی اہمیت کا اندازہ ھوتا ھے۔  ریاست کی ذمہ داری ھے کہ وہ ھر شہری کو تعلیم اور تعلیمی سہولیات مہیا کرے۔

جبکہ ھمارے ملک کی موجودہ صورت حال سب کے سامنے ھے۔
  آۓ دن بڑھتے ھوۓ جرائم اس بات کی گواہی دیتے ھیں کہ اس ملک میں عدالتی نظام انتہائی ناقص ھے۔ قانون غریب کے لیے ھے اور امیر امارت کے مزے لوٹ رھے ھیں۔ جبکہ ریاستِ مدینہ کے خلیفہ دوم حضرت عمر ؓ کا قانون غیروں نے لے کر عروج پایا۔
  اس ملک کے  معاشرے میں آج ھر کسی کی خواہش ھے کہ معاشرے سے برائی کا خاتمہ ھو لیکن میں برائی نہ چھوڑوں۔

جبکہ نبیء رحمت صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ معاشرہ قائم فرمایا کہ جس میں سب ایک دوسرے سے الفت و قربت رکھتے تھے دنیا کو پیغام دیا کہ اگر امن کی منزل کو پانا چاہتے ھو تو عدل و انصاف اور مساوات کی شاہراہوں سے گزرنا لازم ھے۔آج ھمارے وزیراعظم اقلیتوں کے حقوق کی بات تو کرتے ھیں بالکل کرنی چاہیۓ  مگر یہ تو دیکھیں کہ کیا اکثریت کو حقوق مل گئے؟
اس ساری گفتگو کا حاصل یہ ھے کہ اسلام کے نام پہ قائم کردہ ریاست میں اسلام کا نفاذ قائم نہیں ھوا اور اس جرم میں ایک عام شہری سے لے کر حکمران تک سب شریک ھیں۔

اسلام کا نفاذ صرف ایک ھی صورت میں ممکن ھے کہ نسلِ  نو کو اسلامی اصول اور اسلامی نظام کی اصل روح سے آشنا کر دیا جاۓ۔ میں اس پہ ھی گفتگو ختم کرتا ہوں۔
اب کیا لکھیں ہم کاغذ پر اب لکھنے کو کیا باقی ہے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :