
”پاکستان اور ریاستِ مدینہ“
منگل 10 دسمبر 2019

قاضی زین العابدین
(جاری ہے)
قیامِ پاکستان سے اب تک اس ریاست کے مختلف پہلوؤں پہ روشنی ڈالیں تو طویل داستانوں پہ مشتمل باب کا آغاز ھوتا ھے جسے ایک وہ شخص جو بانئ پاکستان کے نظریے اور اسلامی نظام اور اصولوں سے بخوبی واقف ھو,پڑھتے پڑھتے اشکبار آنکھیں اور غمزدہ دل لیے کچھ لمحات کے لیے پریشان ھو جاتا ھے۔ مگر اچانک اس کے دل میں ایمانی قوت ایک ہل چل سی مچا دیتی ھے جو اللہ کے نام کی ضرب سے جاگ جاتی ھے اور آخرکار اسے اطمینان کی کیفیت میں لے آتی ھے چنانچہ وہ اللہ پہ بھروسہ کرتے ھوۓ پھر سے امید کا دامن تھام لیتا ھے۔ تاریخ ایسے بے شمار سیاہ اوراق سے بھری پڑی ھے جن میں اسلام کا نام استعمال کیا گیا مگر اسلام کے نام پہ کافرانہ نظام کا نفاذ قائم رھا۔ آج کوئی بھی اطمینان سے یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ پاکستان میں ایک انچ جگہ پر بھی اجتماعی طور پہ اسلام نافذ ھے۔ غرض یہ کہ جہاں تک نفاذِ شریعت کی بات ھے یہ ریاست اپنے مقاصد کے حصول میں بری طرح ناکام ھوئی ھے۔
سب سے پہلے اس ملک کی سیاست کو اسلام کے میزان میں دیکھیں تو یہاں پہ جو جمہوریت قائم نظر آتی ھے اس کا کہیں بھی اسلام میں تصور موجود نہیں۔ اسلام ھمیشہ صاحب الراۓ کی بات کرتا ھے اور اھلِ علم کو جاھل پہ فوقیت دیتا ھے جبکہ اس جمہوریت ستر صاحب الراۓ یعنی اھلِ علم پہ اکہتر انگوٹھا ٹیک یعنی جاھل کو فوقیت حاصل ھے گویا ایک صاحب الراۓ اور ایک جاھل کی راۓ برابر ھے۔ بے شمار دینی قوتیں جنہوں نے نفاذِ اسلام کی کوششیں کی وہ بری طرح ناکام ھوئیں اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ برصغیر سے انگریز کے جانے کے بعد انھوں نے اسی انگریز کے قائم کردہ نظام میں رہ کر یا شامل ھو کر نفاذِ اسلام کی کوششیں کی یوں اس نظام کو اور تقویت مل گئی جبکہ انھیں اس کے برعکس ایک اسلامی نظام متعارف کروانا چاہیۓ تھا۔ اسلام نے تو سیاست کو بڑی واضح انداز میں پیش کیا۔ نبٸ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات ھمارے لیے مشعلِ راہ ھیں انکی ہستی ھر پہلو کا احاطہ کیے ھوئے ھے۔
اس ریاست کا معاشی نظام مغربی نظام کی طرح سود پہ چل رھا ھے جس کی اسلام میں سختی سے ممانعت آئی ھے حتی کہ سود کے استعمال کو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ اعلانِ جنگ قرار دیا گیا۔ اس سودی نظام سے امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ھوتا جا رھا ھے اور قوم مختلف طبقات میں بٹ کر رہ گئی جبکہ ریاستِ مدینہ کے امیر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے تو اس طبقاتی نظام کا خاتمہ کیا تھا بقول فاروق حسین صابر
انسانوں کو وحدت کی ترکیب بتائی ھے
آۓ دن بڑھتے ھوۓ جرائم اس بات کی گواہی دیتے ھیں کہ اس ملک میں عدالتی نظام انتہائی ناقص ھے۔ قانون غریب کے لیے ھے اور امیر امارت کے مزے لوٹ رھے ھیں۔ جبکہ ریاستِ مدینہ کے خلیفہ دوم حضرت عمر ؓ کا قانون غیروں نے لے کر عروج پایا۔
اس ملک کے معاشرے میں آج ھر کسی کی خواہش ھے کہ معاشرے سے برائی کا خاتمہ ھو لیکن میں برائی نہ چھوڑوں۔ جبکہ نبیء رحمت صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ معاشرہ قائم فرمایا کہ جس میں سب ایک دوسرے سے الفت و قربت رکھتے تھے دنیا کو پیغام دیا کہ اگر امن کی منزل کو پانا چاہتے ھو تو عدل و انصاف اور مساوات کی شاہراہوں سے گزرنا لازم ھے۔آج ھمارے وزیراعظم اقلیتوں کے حقوق کی بات تو کرتے ھیں بالکل کرنی چاہیۓ مگر یہ تو دیکھیں کہ کیا اکثریت کو حقوق مل گئے؟
اس ساری گفتگو کا حاصل یہ ھے کہ اسلام کے نام پہ قائم کردہ ریاست میں اسلام کا نفاذ قائم نہیں ھوا اور اس جرم میں ایک عام شہری سے لے کر حکمران تک سب شریک ھیں۔ اسلام کا نفاذ صرف ایک ھی صورت میں ممکن ھے کہ نسلِ نو کو اسلامی اصول اور اسلامی نظام کی اصل روح سے آشنا کر دیا جاۓ۔ میں اس پہ ھی گفتگو ختم کرتا ہوں۔
اب کیا لکھیں ہم کاغذ پر اب لکھنے کو کیا باقی ہے؟
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
قاضی زین العابدین کے کالمز
-
"7 ستمبر یومِ دفاعِ ختم نبوت و یوم فتحِ اسلام"
منگل 8 ستمبر 2020
-
6 ستمبر تجدیدِ عہدِ وفا کا دن
اتوار 6 ستمبر 2020
-
فکرِ حسین رضی اللہ عنہ کیا ہے؟
جمعہ 28 اگست 2020
-
سیاسی کھیل
پیر 27 جنوری 2020
-
”میرا جسم میری مرضی سے لال لال تک“
اتوار 29 دسمبر 2019
-
”پاکستان اور ریاستِ مدینہ“
منگل 10 دسمبر 2019
قاضی زین العابدین کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.