"اے عادل شہر،تیرے عدل کے معیار پہ۔۔۔افسوس"

ہفتہ 12 ستمبر 2020

Rabia Sultan

رابعہ سلطان

سنا ہے تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ مگر افسوس میرے ملک میں تو یہ سیاہ دن روز روز ہی پلٹ کر آجاتاہے ۔ ابھی چند دن پہلے ہی تو ایک خبر سنی تھی اسی کا خوف کچھ دن دل و دماغ پر حاوی رہا۔ ہر طرف سوشل میڈیا پر ایک ہی شور تھا انصاف کے نام پر لوگوں نے سڑکوں کی خاک چھانی ، نعرے لگائے ، دل کو چھو جانے والی تقریریں کی ، جگہ جگہ اسلامی سزا ہونی چاہئے اس کے حق میں دلیلیں دی جانے لگیں۔

پھر کچھ دن گزر گئے۔ خاموشی ہونے لگی ، جذبے سرد پرنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے سب بھول گئے ۔ اور آج پھر سے ہم وہی آ کر کھڑے ہوگئے ہیں۔ وہی ہیڈ لائینز ، وہی نعرے ، وہی انصاف کی باتیں ہر طرف وہی سماء بے چینی، انتشار اسی دن کی یادیں دلا رہا ہے۔ مگر!.... کیا اس بار بھی ہر بار کی طرح یہ شور وغل بےسود ہے؟ کیا اس بار بھی اس ملک کی بیٹی کو عدل نہیں ملے گا ؟ آئیے آج ذرہ اپنے ماضی کی طرف نظر دوڑائیں اور اس ملک کے وجود کا مقصد اور اس کے پیچھے نظریے کو سمجھیں ۔

(جاری ہے)

۔۔!
یہ بات ہمارے لیے قابل رشک ہے کہ ہم ایک اسلامی ریاست بن کر دنیا کے نقشے پر قائم و دائم ہیں ۔ ہمارا اپنا ایک وجود ہے ٫ ہماری ایک الگ شناخت ہے٫ دنیا ہمیں ایک قوم کی حثیت سے دیکھتی ہے۔ ہم ایک آزاد ملک میں سانس لے رہے ہیں۔ جس کی فضاء بھی ہماری ہے جس کی زمین بھی ہماری ہے ۔ اس ملک کی بقاء کے لئے ہم  مرمٹنے کو اپنا عزاز سمجھتے ہیں ۔ اس ملک کی حفاظت ہمارا اولین مقصد ہے کیوں کے یہ ملک ہمارے بزرگوں کی بےمثال قربانیوں سے ملا ہے۔

لیکن__________!
فیض احمد فیض نے کہا تھا؛
وہ داغ داغ اجالا ، وہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
غور طلب! بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کرم سے الحمدللہ !  اُس کی ذات کا  شکر کہ ہم  ایک الگ ریاست کے بانی ہیں۔ مگر افسوس ! کہ ہم آج تک اس ملک کو بنانے کے پیچھے والی سوچ کو سمجھ نہ سکے ۔ ہم یہ سمجھ ہی نہ سکے کہ آخر اس ملک کا وجود کس وجہ سے عمل میں آیا۔

اپنے بزرگوں کے نظریات کو عملی شکل آج تک نہ دے سکے ۔ ہم نے صرف کتابوں میں پڑھ رکھا ہے کہ یہ ملک اسلامی ریاست ہے ۔ مگر حقیقت اس بات سے واضح اختلاف رکھتی ہے کیوں کہ اس ملک میں رہنے والوں کے طرزِ زندگی سے اب یہ بات ثابت کرنا مشکل ہے کہ اس ملک کو مدینہ جیسی ریاست بنانے کے لیے آزاد کیا گیا تھا۔ ایسی ریاست بنانے کے لیے جدوجہد کی گئی تھی جہاں انصاف عام ہو ۔

مگر یہ کیا ؟ یہاں تو انصاف کے نام پر بنائے گئے ادارے پیسوں کے بھوکے ہیں،  یہاں آج بھی غریب انصاف کا بھکاری ہے ، یہاں انصاف امیر کے گھر کی چوکھٹ کا غلام ہے ، یہاں انصاف کے منصف اپنا قلم چند پیسوں کی عوض بیچتے ہیں۔ اس ملک میں امیر خاندانوں کے چشم و چراغ انصاف کو جیب میں لیے گھومتے ہیں ، یہاں  امیر اور غریب کے لیے الگ الگ قانون ہیں۔
اس ملک کو بزرگوں نے بنایا کیوں کے وہ چاہتے تھے ایسی ریاست بنائی جائے جہاں آزادی کے ساتھ اسلام کے قوانین کو پورا کیا جاسکے۔

مگر یہ کیا ؟ یہاں تو ساری گیم ہی الٹ ہے۔ یہاں تو آج بھی انگریز سرکار کے بنائے ہوئے قانون نافذ ہیں۔ اس ملک کو حاصل کیا گیا کہ یہاں اسلام کا بول بالا ہو گا ۔ اپنی آزادی کے ساتھ مسلمان مسجدوں میں نماز ادا کر سکیں گے ۔ مگر ہمارے بزرگوں نے شاید قربانیاں دینے میں تھوڑی جلد بازی کر لی کیوں کہ آج کی نوجوان نسل کو دیکھ کر کہیں سے بھی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ اسلام کے عروج کا سبب بنیں گے۔

ہمارے آباؤ اجداد ہمیں مسجدوں کے لیے ایک ریاست تو بنا کر دے گئے۔ مگر اس میں جا کر نماز ادا کرنے کا جذبہ نہیں دیے کر گئے۔
میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ ایک دور تھا جب ناچ، گانا اور بے حیائی  ان سب چیزوں کو گناہ کبیرہ اور بےغیرتی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ مگر آج یہ سب فیشن اور ماڈرن ہونے کی پختہ دلیلیں ہیں۔ یہ سب ہمارے اندر اس قدر رچ بس چکی ہیں کہ ہم شاید ہوا کے بغیر چند سیکنڈ زندہ رہنے کا تصور کر سکتے ہیں مگر ناچ گانے کے بغیر نہیں رہ سکتے۔

ہم نے اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ گانا روح کی غذا ہے اور اگر یہ ہی صورتحال رہی تو میرا یہ خیال ہے کہ وہ وقت بھی دور نہیں جب ہم ایصالِ ثواب کے لیے قرآن خوانی کی بجائے تال سے تال ملائیں گے ۔ اور یہ سوچ کر دکھ ہوتا ہے کہ ہماری اس سر زمین میں فیشن کے نام پر بے حیائی کے کارخانے چل رہے ہیں۔
اس ملک کو بنایا گیا تھا کہ یہاں لوگوں کی جان و مال ، ان کی عزتوں کی حفاظت ہوگی۔

مگر افسوس کے ہم ایسا کچھ نہ کر سکے73 سال گزر جانے کے باوجود آج بھی ایک ماں اپنے گھر سے نکلی ہوئی بیٹی اور بیٹے کی عزت و جان کی فکر مند ہے۔ آج کے والدین میں اب تک وہی خوف ، وہی ڈر زندہ ہے ۔ آزادی کے نعرے اور جشن منانے والوں کو یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ ہم آج بھی غلام ہیں۔ ہم اپنے آباؤ اجداد کے نظریوں کو آج تک عملی جامہ نہ پہنا سکے ۔ ہم آج بھی ذہنی طور پر مفلوج ہیں۔

بس اب بہت ہوا !  آزادی کے نام پر ایک دن جشن منا لینے سے ، حب الوطنی سے بھرپور تقریریں کر لینے سے ، جذبات بھری تحریریں لکھ لینے سے ، محبت بھرے نغمے گا لینے سے ، پر جوش نعرے لگا لینے سے۔
اب کچھ نہ ہوگا اب ہمیں یہ عزم بنانا ہے کہ اپنے بزرگوں کی دی گئی قربانیوں کو ضائع نہیں کریں گے ۔ حقیقتاً اس ملک کو اسلامی ریاست بنائے گے ۔ ایسی ریاست جس کا خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا۔

ایسی ریاست جس میں اسلام کا بول بالا ہو ۔ صرف کتابوں میں لکھے جانے والے مضمونوں میں یا صرف دنیا کو سنائی جانے والی تقریروں میں یہ ایک اسلامی ریاست نہیں ہوگی  بلکہ ہمارا معاشرہ اور معاشرتی نظام اس بات کی گواہی دے کہ یہ ملک ایک اسلامی ریاست ہے اور ہم صحیح معنوں میں اس ملک کو مدینہ جیسی ریاست بنائے ۔ ایسی اسلامی ریاست جہاں گھر سے نکلی ماں ، بہن اور بیٹی اپنی عزتوں کے ساتھ واپس آئیں۔

جہاں کسی درندگی کا خوف نہ ہو ۔ یہاں انصاف عام ہو ۔ انصاف کے لیے روڈوں کی خاک نہ چھاننی پڑے ۔ اللہ تعالیٰ کے دربار میں التجاء ہے کہ وہ اس ملک پر اپنا خاص کرم فرمائے۔ اور ہماری ماؤں بہنوں کی عزت و آبرو کی حفاظت فرمائے کیوں کہ اب اس ملک کہ شہریوں سے اس بات کی امید رکھنا بےسود ہے وہ اور لوگ تھے جو کہتے تھےکہ
" مائیں ،بہنیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں"
ایسی سوچ رکھنے والے لوگ اس دنیا سے رخصت ہوئے اب یہاں جو رہتے ہیں انہیں انسان سے حیوان بنتے دیر نہیں لگتی۔ ہمیں اس وقت  ہدایت کی ضرورت ہے۔ اپنے آباؤ اجداد کے اصولوں کو بھلا کر ہم تباہی کے مرحلے پر آ کھڑے ہوئے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :