حق حقدار تک۔۔۔

منگل 10 نومبر 2020

Raja Furqan Ahmed

راجہ فرقان احمد

کچھ عرصہ قبل ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں ایک بھکاری سگنل پر کھڑا آنے جانے والی گاڑیوں سے بھیک مانگ رہا تھا۔ دیکھنے میں تو وہ شخص ایک بازو سے محروم لگ رہا تھا۔ اس بھکاری پر ترس بھی آ رہا تھا لیکن اچانک پیچھے سے ایک نوجوان آیا اور اس نے بھکاری کی قمیض اوپر کی تو دیکھنے کو ملا کہ بھکاری کا ہاتھ اندر موجود تھا۔ وہ نوجوان دونوں ہاتھوں سے صحیح سلامت بھکاری بننے کی ایکٹنگ کر رہا تھا۔


اس دنیا میں گئی ایسے لوگ موجود ہیں جو اس پیشے سے وابستہ ہیں۔ ان کی روزی روٹی اس پیشے سے جاری ہے۔
بھکاریوں کی بھرتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ایک سماجی تجربہ کیا گیا جس کا مقصد یہ جاننا تھا کہ پاکستانی عوام گدا گری کے پیشے کو کس طریقہ سے فوقیت دیتے ہیں۔ ایک نوجوان کو پھٹے پرانے کپڑے پہنائیں اور بھیک مانگنے بھیجا جبکہ دوسرے نوجوان کو مختلف چیزوں کو فروخت کرنے بھیجا۔

(جاری ہے)

شام کو بھکاری اٹھارہ سو روپے جبکہ مزدور نوجوان 600 روپے کما کر لایا۔ اس سماجی تجربہ کے نتیجے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم بحیثیت قوم بھیک مانگنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور مزدوری کرنے والوں کی حوصلہ شکنی۔
ہوٹل کے ویٹر, سبزی فروش, مزدوروں اور چھوٹی سطح کے محنت کشوں کے ساتھ ایک ایک پائی کا حساب رکھتے ہیں جب کہ پیشہ ور بھکاریوں کو دس, بیس یا سو, پچاس دے کر سمجھتے ہیں کہ جنت واجب ہو گی۔

ہونا تو یہ چاہئے کہ بھکاریوں کو کھانا کھلایا جائے جبکہ مزدوری کرنے والوں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے۔ کسی دانا آدمی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر بھکاری کو ایک لاکھ روپے بھی دے دیے جائے تو وہ بھکاری اگلے روز بھیک مانگنے نکل جائے گا جبکہ مزدور آدمی اسی رقم سے اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کی کوشش کرے گا۔
آئے روز لوگ پاکستان میں ملکی حالات کے پیش نظر اس پیشے سے وابستہ ہو رہے ہیں۔

اسی پیشے سے نہ صرف بڑے بلکہ بچوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کام میں بچے بھی اپنا لوہا منوانے میں مصروف ہیں۔ اکثر معصوم بچے جو اس کام سے وابستہ ہوتے ہیں
 گاہک کو دیکھتے ہی پیچھے پڑ جاتے ہیں۔
پاکستان میں تقریبا ڈھائی کروڑ لوگ اس پیشے سے وابستہ ہیں۔ اکثر رمضان کے موقع پر یہ برادری بڑے شہروں کا رخ کرتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پچھلے سال رمضان کے موقع پر تقریبا ساٹھ سے ستر ہزار بھکاریوں نے کراچی کا رخ کیا۔

پاکستان کے قانون کے مطابق بھیک مانگنا جرم ہے جس کی سزا تقریبا تین سال ہے جبکہ والدین جو اپنے بچوں کو بھیک مانگنے کے لیے بیچتے ہیں انہیں بھی اس سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن یہ صرف کتابی باتیں ہیں کبھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بھکاری ایک پیشہ بن چکا ہے۔ نہ صرف بھکاری بلکہ اعلیٰ حکام بھی ان پیسوں سے استفادہ ہوتے ہیں بلکہ اب تو بھکاریوں کا ٹھیکیداری نظام بھی متعارف ہوچکا ہے جو بھکاریوں کو مختلف سگنلز پر ذمہ داری اور دوسرے بھکاری کو اس کی حدود میں داخل ہونے سے روکتا ہے۔


ان بھکاریوں کی وجہ سے اکثر سفید پوش لوگ اپنے حق سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یہ انسان اپنی آنکھوں سے اپنی حسرتوں, خوشیوں, کامیابیوں اور کامرانیوں کو تنکا تنکا ہوتے اور ہواوٴں میں بکھرتے دیکھتے ہیں اور ان میں بے بسی اور لاچارگی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو کبھی دوسرے کے سامنے بھیک تو کیا ہاتھ بھی نہیں پھیلاتے۔ یہ مستحق لوگ ہوتے ہیں بلکہ اسلام میں بھی ان لوگوں کو صدقہ, زکو? دینے کی ترجیح دی گئی ہے۔


اکثر لوگ بے روزگاری, غربت کو بھکاری میں اضافے کی دلیل دیتے ہیں لیکن میرے نزدیک اگر ان کو ملک کا وزیراعظم بھی بنا دیا جائے تو اگلے دن اپنے پیشے پر نکل پڑیں گے۔
خیر حکومت کو چاہیے کہ وہ ان بھکاریوں کے خلاف کریک ڈاوٴن کرے اور ان پیشہ ور بھکاریوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔ مزید حکومت کو یہ بھی چاہیے کہ پلان تشکیل دیا جائے جس سے بے روزگاری, غربت میں نمایاں کمی آ سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :