ہم نہیں بدلے گئے

جمعرات 19 نومبر 2020

Raja Furqan Ahmed

راجہ فرقان احمد

جمعہ کی دوپہر تقریبا دو بجے کہ لگ بھگ اسلام آباد کی ایک شاہراہ سے گزرنے کا اتفاق ہوا. اکثر وہاں سے گزر پیش ہوتا رہتا ہے لیکن حالات ہمیشہ نارمل ہی رہتے تھے. گاڑیوں کی بر رفتاری کے باعث اس شاہراہ میں ٹریفک ہمیشہ جاری و ساری رہتی ہے لیکن اس دن کچھ عجیب دیکھنے کو ملا. مجھے بھی اس لمبی گاڑیوں کی قطار سے گزرنا تھا سو میں نے دائیں بائیں کی جانب سے آگے بڑھنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکا.

دور نظردورائی تو دیکھنے کو ملا کہ باوردی اہلکار جس کا تعلق موٹروے پولیس سے تھا اپنا موٹر بائیک سڑک پر کھڑی کرکے تمام گاڑیوں کو روک رہا تھا. وہاں پر کھڑے تمام لوگ روڈ کھلنے کا انتظار کر رہے تھے مگر یہ انتظار سیکنڈ سے منٹو اور منٹوں سے گھنٹوں تک بدل گیا.

(جاری ہے)

ٹریفک سارجنٹ سے اس بارے میں جا کر پوچھا تو اس نے ناراضگی سے جواب دیا "روٹ لگا ہے، وی آئی پی موومنٹ ہے".

خیر اس کے لب و لہجہ سے لگا شاید میں نے کچھ غلط پوچھ لیا ہے. معلوم نہیں وہ کون سا شخص تھا جس کے لئے اسلام آباد کے مشہور شاہراہ کشمیر ہائی وے کو بند کرنا پڑا اور وہاں پر عوام کو تقریبا ایک گھنٹہ ذلیل و خوار ہونا پڑا.
میں دوبارہ سے ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں ہمیشہ اپنے کالم میں عوام کی فلاح و بہبود و ترقی کی بات کرتا ہوں اور کچھ لوگوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوتی اور مخصوص پارٹی کے ساتھ میری وابستگی کا الزام لگاتے ہیں جو سراسر غلط ہے.

خیر تبدیلی سرکار کی جانب سے جو وی آئی پی کے بارے میں دعوی کیے گئے تھے فلحال کوئی عمل درآمد نہیں ہوا.
پاکستان میں وی آئی پی کو ہمیشہ خاص اہمیت دی جاتی ہے. حکومت میں آنے سے پہلے یہ لوگ وی آئی پی کلچر ختم کرنے کے دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر اس پر عمل نہیں ہوتا.
وی آئی پی کلچر کسی ایک فرد یا پارٹی کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ مسئلہ پوری قوم کا ہے.

حالات اور واقعات میں پاکستانی قوم کو اس کا عادی بنا دیا ہے. ہمارے حکمران اس نشے کے عادی ہو چکے ہیں. پروٹوکول کے بغیر ان کا آنا جانا کہاں ممکن ہوسکتا ہے جبکہ یہ لت انکی اگلی نسلوں میں بھی چل رہی ہے. جہاں سے وی آئی پی کا گزر ہوتا ہے وہاں کی سڑکوں کو دوسری ٹریفک کے لیے خصوصی بند کردیا جاتا ہے. کیا یہ غریب عوام ان کے لئے سکیورٹی رسک ہے. جو وزیراعظم اپنے آپ کو اپنے لوگوں میں محفوظ نہ سمجھے وہ اپنے لوگوں کی نمائندگی کس طرح کر سکتا ہے؟ وی آئی پی کلچر ایک سوچ، ایک نظریے کا نام ہے جس سے اس انسان کی طاقت کا اندازہ لگایا جاتا ہے.
پچھلی حکومتوں میں خصوصی طور پر پیپلز پارٹی کے وزیروں اور مشیروں نے وی آئی پی کلچر کے مزے لوٹے.

دو دو گھنٹوں تک انسانی جان کو سڑک میں ذلیل اور رسوا ہونا پڑتا تھا. انسانیت کا جنازہ نکل جاتا لیکن ان وی آئی پیز کا راستہ صاف رکھنا ٹریفک اہلکاروں کی پہلی ترجیح ہوتی تھی. ہم جیسے عام لوگ اس کے خلاف نہ تو آواز اٹھا سکتے اور نہ کچھ کرسکتے. اس وقت بھی سندھ میں یہی حال ہے. میرے نزدیک یہ ایک صوبے کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ہراس شخص کا مسئلہ ہے جو ٹیکس دیتا ہے، اس کے عوض حکومتی ارکان عیاشیاں کرتے ہیں.
دوسری جانب شریف خاندان نے جب بھی اقتدار پر قدم جمائے عوام سے پہلے اپنی حفاظت کا سوچا.

محل نما رائیونڈ میں ہزاروں کی تعداد میں پولیس اہلکار تعینات کیے. عوام سے پہلے اپنی حفاظت کا سوچا. اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حکمرانوں کی حفاظت سب سے پہلی ترجیح ہونی چاہیے لیکن کیا یہ حکمران عوام کے لئے درد سر بن چکے ہیں؟ کیا ان حکمرانوں کو عوام سے زیادہ اپنی حفاظت کی فکر ہے؟
مجھے وی آئی پی کلچر سے جڑا ایک واقعہ یاد آ گیا کہ نون لیگ کے دور حکومت میں نواز شریف صاحب احتساب عدالت کے چکر لگاتے رہتے تھے.

ایک دفعہ میں اور میرا دوست جس کا نام بلال ہے موٹرسائیکل میں اپنی منزل کی جانب گامزن تھے کہ اچانک نوازشریف کا پروٹوکول آیا اور ہوا کی سپیڈ سے بھی تیز ہمارے ساتھ سے گزرا. میں اور میرا دوست کچھ وقت تک یہی سوچتے رہے کہ یہ کیا ہوا ہے. یہ پروٹوکول کے افسران اور اہلکار دوسرے کو انسان ہی نہیں سمجھتے اور اپنی گاڑیاں انسانوں پر چڑھاتے ہیں.

ان لوگوں کو خدا کا خوف ہونا چاہیے.
تبدیلی کے دعوے داروں نے اقتدار میں جب قدم رکھا تو پروٹوکول، وی آئی پی کلچر ختم کرنے کا عزم کیا لیکن خان صاحب کی جانب سے فی الحال کوئی اس پر اقدام نہیں کیا گیا بلکہ آئے روز دارالحکومت کی شاہراہوں پر روٹ لگا دکھائی دے رہا ہے جس کے باعث عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے. حکومت کی جانب سے اس معاملے پر کوئی واضح پالیسی نہیں آئی.

ٹریفک کی بندش کے باعث مریضوں کو بھی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے.
میں اکثرFIXIT کے لوگوں کو اسلام آباد میں ڈھونڈتا ہوں کہ سندھ میں زبردستی روڈ کھلوا لیتے ہیں لیکن جب وفاق کی بات آتی ہے تو یہ لوگ نظر نہیں آتے.
میری حکومتی جماعت سے یہ اپیل ہے کہ وی آئی پی کلچر کا جلد سے جلد خاتمہ کرے. جہاں پر سکیورٹی خطرات ہو وہاں پر سکیورٹی دی جائے لیکن عوام کو مشکل میں ڈالے بغیر اس مسئلہ کا کوئی دوسرا حل نکالا جائے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :