جہیز

جمعہ 4 دسمبر 2020

Ramshaa Jahangir

رمشاء جہانگیر

جہیز ایک ایسا لفظ بلکہ لفظ نہیں بوجھ کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا ایک ایسا بوجھ جسکی وجہ سے کئی لڑکیوں کے بالوں میں ماں باپ کے گھروں میں بیٹھے بیٹھے چاندی آ جاتی ہے۔اگر ایک لڑکی اپنے ساتھ اپنےسسرال بہت سارا جہیز نہ لے کے جائے تو اسکو ساری زندگی سسرال والوں کے طعنے سننے کو ملتے ہیں کہ ماں باپ کے گھر سے لائی ہی کیا ہے ایسے لوگوں سے کوئی پوچھے کہ ایک لڑکی جو اپنے اتنے پیاروں اور سگے رشتوں کو چھوڑ کر انجانے لوگوں کے درمیان آتی ہے ان سب کو اپنا بنانے کی کوشش کرتی ہے صرف اسے ڈھیر سارا جہیز نہ لانے پر اتنے طعنے سننے کو ملتے ہیں اور اسے بری طرح سےدھتکار دیا جاتا ہے ۔

ماں باپ جو اپنی بیٹیوں کو اتنے پیار سے پالتے ہیں انکی ہر چھوٹی سے چھوٹی خواہش کو پورا کرتے ہیں انھیں اچھی تعلیم دلواتے ہیں اور آخر پر جب وہی والدین جہیز نہ ہونے کی وجہ سے اپنی بیٹی کو اپنے گھر بٹھانے پہ مجبور ہو جاتے ہیں تو کیا گزرتی ہو گی ان والدین کے دلوں پر۔

(جاری ہے)

۔ہمارے معاشرے میں جہیز نہ لانے پر کئی لڑکیوں کو بہت بری طرح سےجلا دیا جاتا ہے۔


 کہنے کو تو جہیز ایک لعنت ہے لیکن پھر بھی جب تک بہو جیز سے پورے گھر کو اچھی طرح نہ بھر د ے تو وہ ایک اچھی بہو نہیں کہلاتی ۔  ایک غریب لڑکی کا باپ،بھائی دن رات محنت کرتے ہیں کہ انکی بیٹی ،بہن اپنے سسرال میں ایک پرسکون زندگی گزار سکے لیکن آخر میں کسی نہ کسی شے کی کمی کی وجہ سے اسکو سسرال والوں کے طعنے برداشت کرنے پڑتے ہیں۔اج کل لڑکے والے رشتہ طے ہونے سے پہلے ہی لڑکی والوں کے ہاتھ میں ایک لمبی لسٹ پکڑا دیتے ہیں جس میں باقی گھریلو سامان کے ساتھ ساتھ گاڑی،موٹرسائیکل اور اس طرح کی اور کئی چیزیں شامل ہوتی ہیں اور ساتھ ہی یہ شرط رکھ دیتے ہیں کہ اگر لڑکی والے یہ سب چیزیں دینے کی حیثیت رکھتے ہیں تو تب ہی بات آگے بڑھے گی۔


 ورنہ لڑکے والوں کی طرف سے اسی وقت انکار کردیا جاتاہے۔اگر ہمارے معاشرے سے اس جہیز جیسی لعنت کو ختم کر دیا جائے اور ایک لڑکی کو بغیر کسی شرط کے  پورے دل و جاں اور اپنائیت سے اپنایا جائے تو نہ ہی کوئی لڑکی اپنے ماں باپ کے گھر میں کنواری بیٹھے، نہ ہی اسکے بالوں میں چاندی آئے ، نہ ہی اس کو سسرال میں کوئی طعنے سننا پڑیں اور نہ ہی کسی ما ں باپ کو جہیز نہ ہونے کی وجہ سے اپنی بیٹی کو اپنے گھروں میں بٹھانا پڑے۔
 اور وہ بغیر کسی پریشانی کے اپنی بیٹی  کو با عزت طریقے سے اپنے گھر سے   رخصت کر سکیں۔
باپ بوجھ ڈھوتا تھا کیا جہیز دے پاتا
اس لیے وہ شہزادی آج تک کنواری ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :