علم کی دولت

منگل 28 اپریل 2020

Rashida Saadia

راشدہ سعدیہ

اللہ رب العزت نے پہلے ملائکہ ،جنات اور شیاطین کو پیدا فرمایا۔ پھر  انسان کو پیدا فرماکر اپنی تمام مخلوقات پر اس کو فضیلت عطا فرمائی۔ باری تعالی نے ملائکہ کو  نور سے، شیاطین و جنات کو آگ سے  جبکہ انسان کو مٹّی سے پیدا فرمایا۔ دیکھا جاۓ تو انسان کے وجود کو آگ اور نور کی بنسبت انتہائی کم درجے کی چیز سے بنایا گیا ہے مگر اعلی درجہ انسان ہی کی نصیب میں آیا۔


مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ جب اللہ پاک نے اپنا ارادہ ”انی جاعل فی الارض خلیفہ“(میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں) فرشتوں کے سامنے ظاہر فرمایا۔اس کی خصوصیات یعنی اطاعت و معصیت بھی بتائیں تو ان کو تعجب و حیرانگی ہوئی۔ فرشتوں نے اللہ پاک سے سوال کیا۔ قالوا أتجعل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الدماء۔

(جاری ہے)

( انہوں نے سوال کیا کہ کیا آپ ان کو بنانے والے ہیں وہاں پر، جو وہاں فساد کریں گے اور خونریزی کریں گے؟) ان کا حیران ہونا بنتا تھا ۔


انہوں نے انسان سے پہلے صرف دو قسم کی مخلوقات دیکھی تھیں۔ ایک وہ جنہیں (فرشتے) اطاعت کا مادہ ودیعت کیا گیا تھا۔ اس لیے وہ ہر وقت صرف اور صرف اطاعت ہی کرتے تھے۔ دوسری وہ مخلوق یعنی شیاطین ، جنہیں معصیت کا مادہ دیا گیا۔لہذا وہ ہر وقت نافرمانی کی راہ پر رہتے تھے۔
تو اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کو ”علم“ عطا کرکے فرشتوں کے تعجب و حیرانگی کو دور فرمایا۔


 انسان کو تین مادہ عطا کیے۔ 1 اطاعت 2معصیت 3علم۔  
تیسرا مادہ یعنی ”علم“ ہی انسان کے افضلیت کی وجہ بنی۔
 علم ہی اپنے معبود کی معرفت کے حصول کا ذریعہ ہے۔
علم کی وجہ سے انسان اپنے خالق و مالک کی رضا و منشاء کو جان سکتا ہے۔
علم انسان کی  زندگی کو منظم کرتا ہے۔ اس کی خرابیوں کی اصلاح کرتا ہے۔اسے خوش نما بناتا ہے۔
علم سے ہی خشیت الہی کا حصول ممکن ہے۔

ہر شعبہ ہاۓ زندگی میں بنا علم کے امانتداری اور وفاشعاری ناممکن ہے۔
یہی علم انسان کو اسکی زندگی کا مقصد بتاتا ہے۔ اسی کے مطابق عمل پیرا ہوکر وہ اپنی زندگی و آخرت کو سنوارتا ہے۔
علم نے ہی حضرت آدم علیہ اسلام کو ابتداۓ دنیا کے وقت عزت عطا کی تھی۔ علم آج بھی انسان کو تمام مخلوقات پر بشمول ان انسانوں کے، جو بے علم ہیں، فضیلت عطا کرتا ہے۔


قرآن میں باری تعالی فرماتے ہیں:
”قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون“
(کہہ دیجیے کیا کبھی جاننے والے برابر ہوسکتے ہیں ان لوگوں کے جو نہیں جانتے)
یعنی علم رکھنے والے افراد اور بے علم افراد کبھی بھی رتبے میں ایک دوسرے کے برابر نہیں ہوسکتے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چودہویں رات کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر“۔


ایک اور مقام پر فرمایا: ”جو اپنے گھر سے علم کے طلب کے لیے نکلتا ہے اور اللہ اس کے لیے راستے آسان کر دیتے ہیں۔اس کے بدلے اللہ اس کے لیے جنت کا راستہ بھی آسان فرماتے ہیں“۔
ایک اور حدیث میں فرمایا: ” اللہ پاک جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمانا چاہیں تو اسکو اپنے دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں“۔
ان تمام احادیث سے علم رکھنے والوں کی برتری،عزت اور فضیلت معلوم ہوتی ہے۔

انکے لیے جنتی راستے آسان کردیے جاتے ہیں۔ وہ رب کی رحمت کی آغوش میں رہتے ہیں۔
احادیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ
اللہ کی راہ میں نکلنے والے طالب علم کے اعزاز و اکرام میں خوش ہوکر فرشتے اپنے پر بچھاتے ہیں۔
جس طرح  صدر اور وزیراعظم وغیرہ کسی ملک کے دورے پر جاتے ہیں ، تو انکے اعزاز و اکرام میں لال قالین بچھایا جاتا ہے۔ پھولوں کے گلدستے پیش کیے جاتے ہیں۔

اسی طرح طالب علم کے احترام اور محبت میں فرشتے اپنے پر بچھاتے ہیں۔ان کے لیے دعاگو رہتے ہیں۔ سمندر میں مچھلیاں استغفار کرتی ہیں۔
اے باد صبا کچھ تو ہی بتا مہمان جو آنے والے ہیں
کلیاں نہ بچھانا راہوں پر ہم پلکیں بچھانے والے ہیں

صاحب علم مرنے کے بعد بھی زندہ جاوید ہوتا ہے۔اس کا تذکرہ ہوتا ہے۔اس کی عظمت اور وقار کی تصویر دلوں پر چسپاں رہتی ہے۔

صاحب مال کا تذکرہ ، اس کی واہ واہ اس کے مرنے کے ساتھ ہی ختم ہوجاتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی واللہ عنہ سے کسی نے پوچھا، مال افضل ہے یا علم؟ تو انہوں نے جواب دیا علم کیونکہ: ”علم انبیاء علیہم الصلاة والسلام کی میراث ہے۔جبکہ مال فرعون کی، علم تیری حفاظت کرتا ہے جبکہ مال کی تجھے خود کرنی پڑتی ہے، علم کی دولت اللہ اپنے محبوب بندوں کو ہی دیتا ہے جبکہ مال اپنے محبوب اور غیر محبوب سب کو دیتا ہے“۔


حضرت عبداللہ بن مبارک سے کسی نے کہا کہ ”اگر اللہ تعالی آپ کو بتادیں کہ آج آپ شام کو فوت ہوجائیں گے،  تو آپ اس دن کیا کام کریں گے؟“ فرمایا ”طلب علم میں گزاروں گا“۔
حضرت ابراہیم نخعی نے فرمایا کہ ”فقیہہ ہمیشہ نماز میں رہتا ہے“۔ پوچھا گیا کس طرح؟ فرمایا کہ” تم جب بھی اس کو دیکھو اللہ کا ذکر اس کی زبان پر ہے۔کسی چیز کا حلال ہونا یاکسی چیز کا حرام ہونا بیان کر رہا ہے“۔


نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان من العلم جہالة“ (بےشک وہ علم (جس پر عمل نہ ہو) جہالت ہے)۔
جہالت کی دو قسمیں ہیں۔ ایک جہالت وہ ہے کہ آدمی کسی چیز کو جانتا نہ ہو۔ دوسری قسم یہ کہ آدمی جانتا تو ہو مگرجاننے کے باوجود عمل سے خالی ہو۔ تو اس کا یہ علم حقیقت میں جہالت ہے۔
حضرت مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔”نفس علم اپنی ذات میں کوئی افضل چیز نہیں۔

ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ، اگر میرا علم بمعہ دانستہ جاننا مدار فضیلت ہوتا تو ابلیس سے بڑھ کر کوئی افضل نہ ہوتا کیونکہ سب سے زیادہ علم اس کے پاس ہے۔ شیطان نے امام رازی کو بھی علم میں شکست دی لیکن اس کو اس کے علم نے تکبر میں مبتلا کیا۔جس کی وجہ سے وہ نقصان پانے والوں میں سے ہوگیا۔
حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شیطان کے پاس چار ”ع“ تھے۔

۔بس ایک نہیں تھا۔
وہ بڑا عالم، عابد، عارف اور عاقل تھا مگر عاشق نہ تھا۔ اس لیے اس نے اللہ کے حکم کو عقل میں لانے کی کوشش کی اور کہا ” خلقتنی من النار وخلقتہ من طین“ (آپ نے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے پیدا کیا)۔ اگر عاشق ہوتا تو سر بسجود کرتا۔ بجاۓ قیل وقال کے حکم کی تعمیل کرتا۔
حضرت علامہ اقبال رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
 صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول

سب کچھ جان لینے کے بعد، علم حاصل کرلینے کے بعد اس پر عمل پیرا ہونا نہایت ضروری ہے۔

ایسا علم جو عمل، تواضع اور اخلاق فاضلہ  سے خالی ہو بے وقعت رہتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرماتے تھے:”اللھم انی اعوذبک من العلم لا ینفع“
(اے اللہ میں پناہ مانگتا ہوں ایسے علم سے جس کا کوئی فائدہ نہ ہو)
ہر جگہ لاک ڈاون کی صورتحال  ہے۔ فراغت کے ان لمحوں میں، رمضان المبارک کے ان مبارک ساعات میں، دین کی تعلیم سیکھ کر رب کے محبوب بن جائیں۔
کئی مستند اور اچھے ارارے اس وقت عام فہم انداز میں اس وقت عوام الناس تک دین کی باتیں پہنچارہے ہیں۔ جن میں ادارہ ”البرھان“ ، ”مرکز الحریم“ ، ”الانعام“ اور ”شبان ختم نبوت“ وغیرہ۔
لہذا آگے بڑھیے۔ دین سیکھیے۔عمل کیجیے اور جنتی بن جائیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :