”اصحاب فیل“ کا واقعہ اور موجودہ حالات

اتوار 29 مارچ 2020

Rashida Saadia

راشدہ سعدیہ

ملکی اور غیر ملکی سطح پر گردش کرتی خبروں نے  مجھے آج سے کئی سو سال پہلے پیش آنے والا ”اصحاب فیل“ کا واقعہ یاد دلادیا۔ اس وقت کا سپر پاور (ابرہہ) اپنے لاؤ لشکر اور ہاتھیوں کی ایک کثیر تعداد لے کر شہر مکہ کی طرف چل پڑا۔
 وہ شہر مکہ،  جو بیابان ہونے کے ساتھ بنجر بھی تھا۔ اور وہاں کے لوگ ان پڑھ بھی تھے۔ یعنی معیشت کے ساتھ معاشرت بھی انتہاء کی کمزور تھی۔


ابرہہ کا یہ دعوی تھا کہ وہ ”سپر پاور“ ہے۔اس سے بڑا مال و دولت یا طاقت میں  کوئی نہیں ہے۔اس کا کہنا یہ بھی تھا کہ ”وہ کسی کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے اور ناہی اس کا کوئی رب ہے بلکہ وہ خود خدا ہے“۔اسی بات کو لے کر ابرہہ شہر مکہ آپہنچا اور غرور تکبر کے ساتھ نعوذ باللہ "بیت اللہ" کو منہمد کرنے کے لیے آگے بڑھ گیا۔

(جاری ہے)

مگر دیکھتے ہی دیکھتے فنا ہوگیا۔


بہت چھوٹے پرندے یعنی ا”بابیل“ نے اس کی پاور کو، اس کے غرور کے ساتھ خاک میں ملا دیا۔ یوں اللہ پاک نے اپنے ”خالق و مالک“ ہونے کا ثبوت دیا۔
 بالکل اسی طرح آج کل ”کرونا وائرس“ نے بڑی بڑی طاقتوں کو پست کر دیا۔ دیکھا جائے تو یہ بیماری نزلہ ، کھانسی اور بخار کا مجموعہ ہے۔ یعنی ایسی بیماریوں کا مجموعہ کہ جس سے قتل عام نہیں ہوتا۔

اور نہ ہی یہ بیماریاں لا علاج بنتی ہیں۔
مگر اس وبائی مرض نے جہاں بڑے بڑے ترقی یافتہ اور طاقتور ممالک کو زیر نگوں کیا۔ وہیں پر ہر قسم کی ٹیکنالوجی سے لیس ممالک کی ٹیکنالوجی کو بھی فیل کر دیا۔
وہ طاقتیں جنہوں نے چاند کی سطح کو عبور کیا۔ مگر وہ اس  بیماری کی وجہ سے بڑھتی شرح اموات پر عبور حاصل کرنے سے تاحال قاصر ہیں۔
اس وائرس نے "لمن الملک الیوم" (آج کس کی بادشاہت ہے)کی عملی تصویر پیش کر دی۔

اب وہ تمام لوگ جو اللہ پاک کی ذات کے انکاری تھے۔ اسی در سے رحم  مانگنے پر مجبور ہوگئے۔
اٹلی (ملک) کے صدر کہتے ہیں کہ”میں نے اس مہلک وائرس سے بچنے کے لیے ہر قسم کی تدابیر اختیار کرلیں مگر میں اب آسمانوں کے رب سے رحم کی اپیل کرتا ہوں“۔
آج تک سبھی کو سائنس اور اپنی قابلیت پر بھروسہ تھا مگر اب مان گئے کہ اگر وہی ذات کہ جس کے لیے کہا گیا "لہ ما فی السموات وما فی الارض" (اسی کے لئے جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے) ”کن“(ہوجا) فرمادے تو دوائیوں میں اثر پیدا ہو جائے گا۔


اس کرونا وائرس کی وجہ سے اللہ کے نام لینے والے پر  پابندی عائد کرنے والے بھی خود اس کا نام لینے کی اپیل کرتے نظر آتے ہیں۔ یعنی اسپین (ملک) میں باقاعدہ ہر سطح پر اذانیں کہلوائ گئیں۔
اس وائرس نے ”میرا جسم میری مرضی“ کہنے والوں کو صاف پیغام دیا کہ مرضی صرف رب کی ہوتی ہے ورنہ  بنا ماسک اور داستانوں کے باہر چوک چوراہوں پر آؤ اور ثابت کرو کہ تمہاری مرضی کے بغیر تمہیں وائرس متاثر نہ کرسکے گا۔

اور تو اور۔۔ اب تو ایسے ممالک میں ماسک نہ پہننے والوں پر بھاری جرمانہ عائد کیا جاتا ہے کہ جو پہلے منہ ڈھانپنے(نقاب) پر عائد کرتے تھے۔        
سوال یہاں پر یہ اٹھتا ہے کہ اب ایسے صورتحال میں کیا کیا جاۓ؟؟                                     تو جوابا اس مہلک وائرس نے بھولی بھٹکی ہوئی انسانیت اور بالخصوص مسلمانوں کو پیغام دیا کہ تمام تر پریشانیاں اور مشکلات کا حل باآسانی قرآن و حدیث کی پناہ میں آ کر حاصل کیا جاسکتا ہے۔


کیونکہ دین سے دوری کے باعث امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی بھوکلاہٹ کا شکار ہے۔ ورنہ اس سے پہلے بھی کئی بار ہم وائرسوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ کبھی ڈینگی، تو کبھی چکن گونیا وغیرہ ،وغیرہ مگر حالات اسقدر گھمبیر نہ ہوۓ۔
وجہ صرف امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ان تمام فرامین کو بھولنا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے حالات سے دوری کے لئے ارشاد فرمائے تھے۔


آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جو شخص صبح شام 3 بار " بِسْمِ اللّٰہ الَّذِی لَایَضُرُّ مَعَ اِسْمِہٖ شَئی فِی الْاَرْضِ وَالَا فِی السَّمَاءِ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیِم" پڑے گا وہ  تمام تر مصائب سے دور رہے گا۔
ہم میں سے اکثریت کو  یہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کلونجی کے بارے میں فرمایا "کلونجی میں سوائے موت کے ہر بیماری سے شفا ہے"۔


افسوس اس بات کا ہے کہ قرآن سے دوری کے باعث " وَاِذَمَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْن" کی آیات یاد نہیں ۔
یہ ہمارے ایمان کی کمزوری ہے کہ مسنون دعاؤں اور قرآنی آیات پر یقین نہیں ورنہ اللہ تبارک وتعالی قرآن میں فرماتے ہیں  اِنْہُ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَاد(وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا) جب شفاء اسی کے ہاتھ میں ہے۔ تو وعدہ کے مطابق تمام بیماریوں سے وہی نجات عطاکرے گا۔


یہاں یہ بات بھی واضح کرتی چلوں کہ میں قطعا طبی رپورٹ کا انکار نہیں کرتی۔ اور نہ ہی احتیاطی تدابیر سے انکاری ہوں۔
کیونکہ میں تو اپنے اکابرین کے نقشے قدم پر ہوں جیسا کہ مفتی تقی عثمانی فرماتے ہیں
" کسی وبا عام کے موقع پر مناسب احتیاطی تدابیر اختیار کرنا توکل کے ہر گز خلاف نہیں ہے۔ محکمہ صحت کی جانب سے جاری کی ہوئی تمام تدابیر پر عمل کرنا شرعا بھی ضروری ہے۔

نیز توبہ استغفار اور گناہوں سے پرہیز بھی۔                        
یعنی آزمائش کی ان گھڑیوں کا تقاضہ ہے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے پالنہار کی طرف لوٹ جائیں۔ گناہوں سے توبہ کریں۔ اب تو وہ لوگ بھی اللہ پاک کی طرف پلٹے ہیں جو مسلمان نہیں۔تو بحثیت مسلمان ہمیں زیادہ جلدی اللہ پاک کی بارگاہ میں سربسجود ہونا ہے۔۔کیونکہ ”لا ملجأ ولا منجا من اللہ الّا الیہ“   (کوئی ٹھکانہ نہیں ، کوئی نجات نہیں سواۓ اللہ کے)۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :