کہیں کھو گیا تو پہاڑوں میں رہ لوں گا

منگل 9 فروری 2021

Saad Iftikhar

سعد افتخار

میں جب کبھی سنا کرتا تھا کہ فلاں کوہ پیماء کسی چوٹی کو سَرکرتے ہوئے جان کی بازی ہار گیا تو مجھے بڑا عجیب لگتا کہ کیسے کوئی اپنی جان داؤ پر لگا کر ایسا کرتا ہے اور پھر حاصل بھی پتہ نہیں کیا ہے لیکن جب میں نے سیاحت شروع کی تو آہستہ آہستہ مجھے ان کوہ پیماؤں کی کیمسٹری سمجھ آنے لگی اور جب تک آپ ان کی کیمسٹری سمجھ نہیں جاتے یہ آپ کیلئے بھی اسی طرح عجیب ہے جیسے کبھی میرے لئے تھا ۔

جس طرح پینٹنگ کو نہ سمجھنے والا اس کی قدر و قیمت نہیں سمجھ سکتا وہ جب فیبلو پیکاسو یا سید صدیقین نقوی کی بھی پینٹنگ دیکھے گا تو اسے بس ایک فریم اور تصویر ہی نظر آئے گی لیکن پینٹنگ کو سمجھنے والا جب کسی پینٹنگ کو دیکھے گا تو وہ مصور کے چھوڑے ہوئے ہر رنگ اور ہر سین سے معانی نکالے گا یہی وجہ ہے کہ ہمیں نہ سمجھ آنے والی پینٹنگ جب کروڑوں کی مارکیٹ میں بکتی ہے توہم تب بھی ایسے ہی حیران ہوتے ہیں جیسے کسی کوہ پیما کو k-2پر چڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں ،جب آ پ کو بھی پینٹنگز کے ڈی کوڈز سمجھ آنے لگ گے تو یہ آپ کیلئے بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہوگی جتنی کہ کروڑوں میں خریدنے والے کیلئے ہے ۔

(جاری ہے)


بات ہو رہی تھی کہ سیاحت سے پہلے کوہ پیمائی میرے لئے بھی عجیب تھی جب جب میں پہاڑوں سے واقف ہونے لگا تو یہ پتھر میرے لئے بھی خاص سے ہونے لگے ،مجھے بھی ان سے جیسے محبت سی ہونے لگی ،پہاڑوں سے مانوسیت کی بنیادی 2وجوہات ہیں ،جب 5سے6فٹ قد والا انسان اپنی گردن اٹھا کر ہزاروں فٹ کی بلند چوٹی پر نظر ڈالتا ہے تو خوشی اور ہیبت دو متضاد چیزوں کو بیک وقت محسوس کرتا ہے ،خوشی اسکی بناوٹی خوبصورتی اور بلندی کو دیکھ کر ہوتی ہے لیکن ہیبت اس کے پھیلاؤ،جسامت اور ہزاروں میٹر قدامت سے ہوتی ہے ۔

اب فرق کرنا ذرا آسان ہو گیا ہے کہ پہاڑوں کو دیکھ کر خوشی محسوس کرنے والاعام سیاح ہوتا ہے جبکہ اس ہیبت کو چیلنج کرنے والا کوہ پیماء ہوتا ہے ، کوہ پیماء اس ہزاروں میٹر قد آور چوٹی سے ضد لگا لیتا ہے کہ میں بمشکل 6فٹ کا انسان 28000 فٹ کی بلند چوٹی پر اپنے قدموں کی چھاپ ڈالوں گا اب اگر آپ اس نگاہ سے دیکھیں گے تو شاید آپ کو کوہ پیماء کی جوانمردی ،جنون اور ضد کا اندازہ ہوسکے۔


فروری 1976میں سکردو کے نواحی گاؤں سدپارہ میں محمد علی نام کا بچہ پیدا ہوا،بڑے ہو کر اپنے کیرئیر کا آغاز بطور ِ کُلی کرتا ہے ،پہاڑی علاقوں میں جب کبھی آپ سیاحت کیلئے جاتے ہیں تو آپ کو وہاں ریلوے اسٹیشن کی طرح کُلی آپ کا سامان بلند جگہوں پر پہنچانے کیلئے موجود ہوتے ہیں ،محمد علی نے اپنے سفرکا آغاز بطور کُلی کیا ،1995میں پہاڑوں سے ضد لگانے کی سوجھی اور اپنی زندگی کا رخ بدل دیا ۔

2006میں 8034میٹر چوٹی گاشربرم 2 کو فتح کیا پھر اسی سال سات ہزار میٹر بلند چوٹی سپانتک کو سر کیا ،پھر یہ سلسلہ یوں ہی شروع ہواکہ دنیا کی 14بلند ترین چوٹیوں میں سے 8پر اپنے نام اور پاکستان کا نام نقش کیا،نانگا پربت جسے کِلر ماؤنٹین بھی کہتے ہیں اس کو بھی اپنی زندگی میں چار دفعہ سر کیا اور سب سے بڑھ کر وِنٹر میں نانگاپربت کو سب سے پہلے سر کیا ،اب محمد علی ،محمد علی سے محمدعلی سدپارہ ہو گیا ۔

2018میں k-2سر کرنے والا پہلا پاکستانی کوہ پیماء بن گیا ،2019میں تسلسل کے ساتھ نیپال کی بلند ترین 3چوٹیاں (Lhoste,Manaslu,Makalu)ایک ہی سال میں فتح کیں ۔اب محمد علی سدپارہ ایک قومی اثاثہ بن گیا جو بلندیوں پر اپنے وطن کا سبز ہلالی پرچم لہراتا ۔
محمد علی نے اپنے ایک دوست کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر میں پہاڑوں میں کہیں کھو جاؤں تو مجھ میں اتنی ہمت ہے کہ وہی پر برف کا گھر بنا کر کچھ دن رہ کر واپس آجاوٴں گا ۔


ابھی فروری کے شروع میں محمد علی نے ونٹر میں k-2کو فتح کرنے کا عزم کیا اور بیٹے سمیت دو غیر ملکی کوہ پیماء جان سنوری اور جان پیبلوموہرکیساتھ نکل پڑے ،بیٹا راستے میں ٹیکنیکل پرابلم کیوجہ سے واپس آگیا تاہم محمد علی بغیر مصنوعی آکسیجن کے k-2چڑھتا گیا پھر اچانک 5فروری کی رات کو ان کا رابطہ ختم ہو گیا پچھلے 4دن سے علی سدپارہ اپنے ساتھیوں سمیت لاپتہ سے آرمی نے ریسکیو آپریشن بھی کئے لیکن علی سدپارہ کو ڈھونڈھ نہ سکے ،k-2کے ڈیتھ زون میں اتنا ٹائم گزارنا ناممکن سی بات ہے لیکن ہم پھر بھی اس کی اس بات پر امید وابستہ ہیں کہ ”کہیں کھو گیا تو پہاڑوں میں رہ لونگا“ہر گزرتے لمحے کے ساتھ انتظار کی شدت اختیار کرتا جارہا ہے ،k-2ڈیتھ زون میں پچھلے تقریبا 60گھنٹوں سے لاپتہ سدپارہ پوری قوم کیلئے ایک سانحہ ہے ،سمند ر میں یونس علیہ السلام کی حفاظت فرمانے والے رب k-2کے منفی 50ڈگری میں علی سدپارہ کی حفاظت فرما ابھی تو اس کے ارادے 2022کو ایورسٹ فتح کرنے کے ہیں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :