تمسخرِدین کی بڑی وجہ انتہاء پسندی۔قسط 5

پیر 25 جنوری 2021

Saad Iftikhar

سعد افتخار

نبی پاک ﷺ نے جب نجران کے عیسائیوں اور ان کے حلفاء سے معاہدہ کیا تو آپ نے لکھا کہ اب سے وہ محمد الرسول اللہ کی پناہ میں ہیں ،ان کی جانیں ،ان کی شریعت و مذہب ،ان کے مال ،زمینیں،ان کے حاضر و غائب اور ان کی عبادت گاہیں سب امان میں ہیں اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہی ہے کہ کسی پادری کو اس کے منصب سے نہ ہٹایا جائے ،ان سے کسی بھی چیز کو نہیں لیا جائے گا (الطبقات الکبری)
مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے پندرہویں صدی عیسوی میں مغل سالار امیر باقی کے زیر انتظام اتر پردیش کے علاقے ایودہیا میں ایک بڑی مسجد تعمیر کروائی ،جو فنِ تعمیر میں شاندار اہمیت کی حامل تھی کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی بندہ مسجد کے محراب میں کھڑے ہو کرکوئی سرگوشی بھی کرتا تو وہ بھی مسجد کے پورے ہال میں سنائی دیتی ،اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا کہ کس قدر فن تعمیر میں یہ نمایاں تھی ،تین گنبد والی یہ مسجد ظہیرالدین بابرکے نام سے موسوم ہوئی جو بابری مسجد کہلانے لگی ،بیسویں صدی تک یہ مسجد شاہی مسجد کے حیثیت سے لوگوں کی آنکھ کا تارا رہی،انگریز کے جانے کے بعد ہندوستان تقسیم ہوا تو اب حاکم ہندو تھے ،بیسویں صدی کے میان میں ایک تحریک شروع ہوئی ،جس کی قیادت چند انتہاء پسند کرتے ہیں یہ تحریک بابری مسجد کو مسمار کرنے کیلئے متحرک تھی ان کے خیال میں یہ مسجد رام کی جنم بھومی تھی جس پر مسجد تعمیر کی گئی ،اس تنازعے کی وجہ سے مسجد 1949میں عام عوام کیلئے بند کر دی گئی اور معاملہ عدالت میں چلا گیا ،1992میں انتہاء پسندوں کا ایک بڑا ہجوم مسجد پر حملہ کر دیتا ہے کیونکہ اب اتر پردیش میں حکومت انتہاء پسندجماعت بی جے پی کی تھی ،مسجد پر حملے کا واقعہ مسلمانوں کیلئے بڑا دل خراش تھا ایسے حالات میں ہندو مسلم تنازعہ مزید زور پکڑ گیا ،حکومت چونکہ بی جے پی کی تھی تو ہزاروں مسلمانوں کا مذہب کے نام پر قتل ہوا ،اب یہ معاملہ اعلی عدلیہ میں چلا گیا ،1992سے لے کر2019تک یہ کیس عدالت میں چلا،پھر 2019میں سپریم کورٹ اپنا فیصلہ سناتی ہے جو کہ ہندؤں کے حق میں تھا کہ بابری مسجد ہندؤں کو دے دی جائے اور مسلمانوں کو اسکے متبادل ایودہیا میں جگہ دی جائے گی ،اس تعصبانہ فیصلے کے بعد ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں سمیت دنیا بھر کے مسلمان مضطرب ہوئے۔

(جاری ہے)


پہلے 1949میں تنازعہ بنا کر مسجد کو بند کر دیا جاتا ہے 40سال بعد انتہاء پسند مسجد پر حملہ کر دیتے ہیں دیواریں مسمار کر دی جاتی ہیں مسجد میں آگ لگا دی گئی اور پھر اس واقعے کے بعد ہزاروں لوگوں کاقتل عام ہوتاہے اس سب کے بعد رہتا کام اعلی عدلیہ دیکھا تی ہے ہندؤں کے نظریات کو جلا بخش کر کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری کی جاتی ہے۔
تقریبا ایک ماہ پہلے اس طرز کا ایک واقعہ پاکستان میں بھی ہوتا ہے ،پشاور کے علاقے کرک میں ایک تاریخی ”شری پرماہنس جی مہاراج“نام سے مندر تھا 1997میں اس مندر کو ہندؤں کیلئے بند کر دیا گیا اور معاملہ سپریم کورٹ کے پاس چلا گیا اس کیس کا تنازعہ بھی بابری مسجد سے کچھ ملتا جلتا تھا ،سپریم کورٹ کے 2014میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے صوبائی حکومت کو حکم دیا کہ مسجد کو دوبارہ تعمیر کروایا جائے اور ہندؤں کو ان کی عباد ت کا حق دیا جائے ،وہ لوگ جو اس تنازعہ کی وجہ تھے انھوں نے مندر کی تعمیر میں رکاوٹ ڈال دی دسمبر2020صوبائی حکومت اور مخالف پارٹی کے درمیان مذاکرات تھے اس موقع پر تقریبا 1500لوگ ہاتھ میں احتجاجی بینرز پکڑے احتجاج کر رہے تھے اور ان کی سر براہی وہی علماء حضرات کر رہے تھے جو مندر کے مخالف تھے ،شروع میں تو احتجاج پر سکون رہا لیکن پھر قیادت کی طرف سے اشتعال دلانے پر لوگوں نے مندر پر حملہ کر دیا ،دیواریں گرا دی گئیں آگ لگائی گئی بلکل اسی طرح جس طرح بابری مسجد کے ساتھ ہندؤں نے کیا تھا ،اس واقعے کے بعد سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا اور پولیس نے واقعے میں نامزد 50لوگوں کو گرفتار کیا گیا ،حکومت نے ایسے لوگوں کیساتھ نرمی نہ نرتنے کا فیصلہ کیا ۔


اب آپ خود اندازہ کریں کہ بابری مسجد اور کرک مندر کے واقعے میں کیا فرق ہے ،دونوں اطراف سے لوگوں کے جذبات کو مجروح کیاگیا اور اپنے مذہب کی توہین کا سبب بھی بنے،کیا اس طرح کی انتہاء پسندی کی اجازت کوئی بھی مذہب دے سکتاہے ؟ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے کم از کم میں اتنا جانتاہوں کہ ہمارے مذہب نے ایسا کرنے سے سختی سے منع فرمایا ۔نبی پاک ﷺ نے نجران کے لوگوں کو امان دیتے وقت ان کی عبادت گاہوں اور مذہبی روایات و اقدار کی بھی ضمانت دی تھی،جب ہماری تعلیمات ایسی ہیں تو ہم کیوں اور کیسے کسی غیر مسلم کے عقائد کو نقصان پہنچا سکتے ہیں ؟سورہ کافرون میں اللہ رب العزت نے مسلمانوں اور غیر مسلموں کی تفریق کے بعد لکم دینکم ولی دین کہ کر مذہبی آزادی دی کہ تمہیں تمہارا مذہب مبارک ہواور ہمیں ہمارا۔


میں جب یہ کرک مندر والی رپورٹ انڈین ایکسپریس پر پڑھ رہا تھا تو وہ رپورٹر کہیں پر مذہبی علماء اور کہیں پر انتہاء پسندجسے الفاظ کے ساتھ رپورٹ کر رہا تھا بلکہ ایک ایسی جماعت کا نام بھی اس واقعہ کے ذمہ داران میں درج تھا جو باقاعدہ اپنے نام کیساتھ اسلام کا ٹائٹل استعمال کرتے ہیں ،ہر وہ معاملہ جس سے ہمارے مذہب کو انتہاء پسند کہا جائے کیا ایسی توہین کے ذمہ دار ہم نہیں ؟آج کا غیر مسلم کبھی بھی اتنا تردد نہیں کرے گا کہ وہ بخاری ،مسلم پڑھ کر دیکھے کہ اسلام کیسا دین ہے ،محمد الرسول اللہ کی تعلیمات کیا ہیں ؟یہ کام تو ہم مسلمانوں کیلئے بڑا مشکل ہوا پڑا ہے کہ بجائے مولوی جی کی تقریر کے خود دین کو پڑھ کر سمجھیں تو پھر غیر مسلم کو یہ بتانے کا کیا فائدہ کہ ہمارا دین بڑاامن پسند ہے،وہ نہ تو کتابیں اٹھائے گا اور نہ ہی شعلہ بیاں حضرت کی شعلہ بیانی پر یقین کرے گا ،وہ میرے اور تیرے طور اطوار سے اسلام جانے گا ۔

باقی انتہاء پسند ی کی کیا وجوہات ہیں اسکا کیاحل ہو سکتا وہ ہم ایک الگ سے موضوع میں جاننے کی کوشش کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :