تمسخرِدین کی بڑی وجہ انتہاء پسندی۔قسط 4

منگل 12 جنوری 2021

Saad Iftikhar

سعد افتخار

حبشہ سے عیسائیوں کا ایک گروہ مدینہ پاک تشریف لایا تو نبی پا ک ﷺنے انھیں مسجد نبوی میں ٹہرایا ،ان کی خوب مہمان نوازی کی بلکہ حضور ﷺ نے خود اپنے ہاتھوں سے ان کو پیالے پیش کئے ،جب صحابہ کرام نے دیکھا تو تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے حضور آپ خود ان کی مہمان نوازی کیوں کر رہے ہیں ہم جو موجود ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہیں یہ اسی کے مستحق ہیں ہیں ،جب میرے لوگ ان کے پاس گے تھے تو نجاشی نے بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تھا (مسلم شریف )
اس حدیث مبارکہ کو پڑھنے کے بعد ذہن میں ایک خلل سا پیدا ہوتا ہے کہ عیسائیوں کیساتھ حضور کا حسن سلوک تو بدلہ تھا جو نجاشی نے مسلمانوں کی خدمت کی تھی ،لہذا جب یہ حدیث کسی تشدید والے مسلمان کو سنائیں گے تو وہ تو یہی اعتراض لگائے گا کہ احسا ن کا بدلہ احسان ہے ،اسی لئے حضور کا یہ رویہ تھا۔

(جاری ہے)


مسلم شریف کی ایک اور حدیث مبارکہ جس میں نجران سے 60راہبر عیسائی آئے تو انھوں نے اپنی عبادت کرنا چاہی ، نماز پڑھنا تھی انھیں اور یہ بات صحابہ کرام تک پہنچی تو وہ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے کہ کیا کیا جائے اتنے میں یہ خبر نبی پاک ﷺ تک پہنچ گئی،حضور نے حکم ارشاد فرمایا کہ ان کا قیام بھی مسجد میں کراو اور نماز بھی وہ ہماری مسجد میں پڑھ لیں ،آقاوہ اپنے مذہب کے مطابق نماز پڑھنا چاہتے ہیں؟ فرمایا اجازت ہے ہماری مسجد میں وہ اپنے مذہب کے مطابق نماز پڑھ سکتے ہیں ،اب یہ عیسائی لوگ نجاشی کی طرح اسلام کے یا مسلمانوں کے خیر خواہ نہیں تھے بلکہ یہ 60راہبر نجران سے حضور سے مناظرہ کرنے آئے تھے ۔


حضورﷺ کو کہنا چاہیئے تھا کہ ہم عقیدہ توحید کے ماننے والے ہیں اور تم ٹہرے تثلیث والے ،لہذا ہمارے ہاں تمہاری عبادت کیلئے کو ئی جگہ نہیں لیکن ایسا نہیں کیا کیونکہ وہ ایک سچا رسول اور سچے دین کا داعی ہے اس کی سنت ہمارے لئے نمونہ بننا تھی ۔توحید اور تثلیث تو پھر دور کی بات ہے ہمارے ہاں تو توحید والوں نے توحیدیوں پر پابندیاں لگا رکھی ہیں ،میں نے اکثر مساجد کے باہر آویزاں دیکھا کہ فلاں جماعت کا داخلہ ممنوع ہے وہ یہاں نہ تو قیام کر سکتے ہیں اور نہ ہی دیگر معمولات۔


25سال کی عمر میں ،میں نے سینکڑوں مجالس میں شرکت کی لیکن کسی ایک عالم دین کی گفتگو کا عنوان ”حضور کا اقلیتوں کے ساتھ حسن سلوک “ نہیں تھا کسی ایک کے منہ سے نہیں سنا کہ اسلام غیر مسلموں کو کس طرح تحفظ فراہم کرتا ہے سوائے ایک آدھ کے باقی سب شاید اس کو غیر ضروری سمجھتے ہیں اور جو کوئی کسی غیر مسلم یا مخالف مسلک کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرے تو وہ ایک جماعت کے نزدیک خارجی دوسرے کے نزدیک رافضی اور کسی اور کے نزدیک گمراہ یا کافر کہلاتا ہے ۔


”تمسخرِ دین کی بڑی وجہ انتہاء پسندی“ جیسے موضوع پر لکھنے کا مقصد آئے روز مذہبی انتہاء پسندی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی طرف توجہ مبذول کرانا تھی کیونکہ ایسے واقعات جن کیساتھ مذہب کا نام استعمال ہوگا وہ اغیار کی نظر میں ہمارے اور ہمارے دین کیلئے تمسخر کا سبب بنتے ہیں ۔
چند روز قبل بلوچستان کے علاقے مچھ میں اہل تشیع کے 11افراد کا قتل نا معلوم افراد کے ہاتھوں ہوا اور یہ ہزارہ برادری کیساتھ پہلا واقعہ نہیں تھا اس سے پہلے بھی 2013میں دھماکے میں 100کے قریب لوگ شہید ہوئے اور سینکڑوں زخمی ایسا ہی ایک واقعہ 2016میں پیش آیا جس میں 80کے قریب وکلاء حضرات جان کی بازی ہارے اور اِکا ،دُکاقتل تو ہر تیسرے دن کی بات ہے ،اب یہ جو حال میں 11لوگوں کا وحشیانہ قتل ہوا ،مزدوروں کے گلے کاٹے گے اور جیساکہ بات ہوئی کہ یہ ہزارہ برادری کیساتھ تسلسل کے واقعات تھے ہر دور حکومت میں ان کیساتھ ایسا ہی بڑا سانحہ پیش آیا ،اس دفعہ مظلومین دھرنے پر بیٹھ گے مطالبات پیش کئے گے جن میں نمایا ں یہ تھے کہ ہزارہ فیملی کے جتنے لوگ بھی لاپتہ ہیں سب کو بازیاب کروایا جائے ،ہمارے قاتلوں کو پکڑا جائے اور چونکہ ہزارہ فیملی مختلف رستوں سے ہجرت کرتی ہوئی پاکستان آباد ہوئی ہے تو ان کیساتھ بھی عام شہریوں جیسا سلوک ہونا چاہیے۔

ان سب مطالبات کیساتھ شرط یہ تھی کہ وزیر اعظم پاکستان خود تشریف لا کر ہمیں ڈیل کریں ورنہ ہم یہیں بیٹھے ہیں اور تب تک لاشیں نہیں دفنائیں گے ،وزیر اعظم نے اپنے مشیروں کو بھیجا لیکن مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے ،لاشیں سڑک پرپڑی رہی اور میڈیا کی کوریج سے ساری قوم نے اس پر بات کرنا شروع کر دی ۔لواحقین کا مطالبہ تھا کہ صاحب آئیں گے تو تدفین کریں گے اور صاحب کہہ رہے تھے کہ آپ تدفین کرو میں اسی دن پہنچ آتا ہوں ،اپوزیشن راہنماء بھی تعزیت کیلئے پہنچے اللہ جانے اب اُن کی نیت کیا تھی وہ واقعی درد دل لے کر گے تھے یا سیاسی داد کی خاطر ،ویسے پچھلی دونوں حکومتوں میں ہزارہ فیملی کیساتھ اس سے بھی بڑے سانحات پیش آئے تب یہ پتہ نہیں وزیر اعظم ہاوس کے کس کمرہ میں استراحت فرما تھے ، میڈیا کی کوریج اور سیاسی مخالفین کی آمد سے وزیر اعظم کو یہ مسئلہ بھی سیاسی لگنے لگا اور کہا کہ یہ لوگ بلیک میل کر رہے ہیں ایسے کسی بھی اتھارٹی کو بلیک میل نہیں کیا جا سکتا ،ویسے 126دن کا دھرنا دینے والے شخص کو یہ بلیک میلنگ لگنی نہیں چاہیے ،اگر دیکھا جائے کہ ایسا شخص جس کو ہر تیسرا بندہ ہی بلیک میل کرتا ہو پھر اس کو حقیقی مطالبات بھی بلیک میل ہی نظر آتے ہیں ،اے این پی بلیک میل کرتی ہے پھر وہ جان چھوڑتی ہے تو ایم کیو ایم والے آ جاتے ہیں وہ فارغ ہوتے ہیں تو قائد لیگ والے آ جاتے جب ساری طرف سے سکون ہوتا تو ایڈمنسٹریشن والے اور اپوزیشن آجاتی ،اب ایسے بندے کو تو لگتاہوگا کہ کوئٹہ بلانا بھی اسے بلیک میل کیا جا رہا ہے ۔


بات کچھ اور بتانا تھی لیکن یہ شاید سیاسی رخ اختیار کر گئی ، 6دن کے دھرنے نے اور لواحقین کی دہائی نے پورے ملک میں سوگ کا ماحول پیدا کر دیا ،ٹی وی چینلز سے لے کر سوشل میڈیا بس ہزارہ برادری کیلئے تعزیت اور ان کے حقوق کی آواز تھی ،ایسے حالات میں مخالف مسلک کے چند افراد نے انگڑائی لی اور سوشل میڈیا پر ایک تحریر ٹرول کرنے لگی ،پہلی دو دفعہ نظر انداز کرنے کے بعد جب تیسری دفعہ وہی تحریر میری نظروں سے گزری تو میں رہ نہ سکا اور تحریر پڑھنا شروع کی ،جو شروع کچھ ان الفاظ میں ہو رہی تھی کہ ہزارہ برادری کو الیکٹرانک میڈیا بڑا معصوم بنا کر پیش کر رہا ہے کیونکہ یہ میڈیا اغیار کا غلام ہے اور بہت سے روافض بھی اسے کنٹرول کرتے ہیں ان(ہزارہ برادری) کا بھیانک چہرہ بھی عوام کو دیکھانا چاہیے پھر نیچے ایسے لکھا تھا کہ مجھے شبہ ہوا کہ جیسے میں منگولوں کی تاریخ پڑھ رہاہوں ،ہزارہ برادری تو ہلاکو خان، ہٹلر ،مسولینی اور مودی کی قوم لگتی ہے اس لمبی تحریر پڑھنے کے بعد میرے دماغ نے مجھے جو ون لائنر دیا وہ یہ تھا کہ ”مرے ہیں تو ٹھیک ہو ااس میں اتنا سوگ کاہے کا “
مجھے نہیں پتہ کہ اس تحریر میں کتنی صداقت تھی اس کو اگر سہی مان بھی لیا جائے تو کیا اُن 11مزدوروں کے قتل پر ہمیں ذہن میں ایسے خیالات کو جگہ دینی چاہیے ؟ہماری سر زمین پر تو اگر کوئی غیر مسلم بھی ناحق مارا جاتا ہے ہمیں اسکا بھی درد ہونا چاہیے کیونکہ وہ ہمارے تحفظ میں تھا، باحیثیت قوم ہم اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں لیکن ہم قوم ہے کہا ں ہیں ہم تو بس ایک ہجوم ہیں جس کو کبھی سیاسی استعمال کرتے تو کبھی مذہبی ۔


ہم تو بڑے ظرف والے نبی کے امتی ہیں بڑے ظرف والے دین کے پیروکار ہیں کیا مسلکی اختلاف کی بنیاد پر کلمہ گوسے اس حد تک نفرت اور ان کے سوگ پر ایسا رویہ اختیار کرنا مناسب ہے ؟
مسلم شریف کی دو احادیث میں نے اقلیتوں کیساتھ حسن سلوک کیلئے دلیل بنائی تھیں لیکن ہزارہ برادری کے غم میں یہ تحریر اس قدر طوالت کا شکار ہوئی کہ احساس تک نہ ہوا ،اگلے پارٹ میں انہی احادیث شریف کو وجہ بنا کر غیر مسلموں کے حقوق دیکھیں گے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :