بیساکھی کا میلہ کہاں کریں گے،جلیانوالہ باغ کریں گے

منگل 13 اپریل 2021

Saad Iftikhar

سعد افتخار

13اپریل1919کی صبح چار سال کا بچہ بھرپور سنگھ صبح اٹھتے ہی بڑا خوش تھا کہ آج بیساکھی کا میلہ داداجان کے ساتھ امرتسر شہر میں منائیں گے ،کسی چھوٹے بچے کو صرف بازار جانے کیلئے تیار کر لیں تو صبح سویرے ہی آپ کے گرد گھومنا شروع ہو جائے گا کہ کب چاچو یا ماموں مجھے بازار لے کر جاتے ہیں دراصل یہ عمر ہی ایسی ہوتی کہ بچہ گھرسے باہر نکلنے میں بڑی خوشی محسوس کرتا اسکی بڑی وجہ نئی نئی چیزیں دیکھنا اورماموں چاچو کی جیب ہلکا کرنا ہوتاہے ۔

بھرپور سنگھ کو اس دن دادا جان تیار تو کربیٹھے تھے کہ بیساکھی کامیلہ امرتسر منائیں گے بس وہ وقت تھا کہ بھرپور سنگھ تب سے ہی بے چینی میں کبھی اندر جاتا کبھی باہر اور پھر کبھی دادا جان کو دیکھتا کہ ان کے سنگھار میں کتنی دیر باقی ہے ۔

(جاری ہے)


بلکل بھر پور سنگھ کی طرح آج سے تقریبا 20سال پہلے جب میں 5سال کا تھا تو مجھے بھی کسی نے ایسے ہی فنکشن کیلئے تیار کر لیا ،میرے قرآن ٹیچر انھوں نے مجھے کہا کہ کل 10محرم کا مبارک دن ہے تو ہم شہر چلیں گے اور جلسے ،جلوس میں شرکت کر کے عاشورہ کا مبارک دن منائیں گے ،بس پھر کیا تھا کہ بھرپور سنگھ کی طرح میں بھی صبح سویرے ہی تیار ہو کر ایک چکر ٹیچر صاحب کے گھر کا لگاتا اور ایک چکر اپنے گھر کا ،جب مزید انتظار نہ ہو سکا تو میں نے کہا کہ میں روڈ پراڈے کی طرف جاتا ہوں آپ وہی سے مجھے لے لیجئے گا ۔

ہماری رہائش( تحصیل ہیڈ کوارٹر پھالیہ) میں تھی ابوکی جاب تھی تو ہم بھی ان کے ساتھ سرکاری رہائشوں میں رہتے تھے ،پیچھے رہائشیں تھی اور آگے ہسپتال تھا روڈ کی سائیڈ پر، میں ہسپتال کا کہہ کر اچھلتا کودتا جا رہا تھا کہ جیسے کسی چھوٹے بچے کو 50روپے دیں اور کہا جائے کہ جا کر اپنی مرضی کی چیز لے لو تو بس میری اٹکلیاں بھی ویسی ہی تھیں ۔یہاں میرے اور بھرپور سنگھ کے کریکٹر میں کوئی فرق نا تھا دو معصوم بچے بس شہر جانے کی خوشی میں پاگل تھے ایک عاشورہ منانے شہر جا رہا تھا اور دوسرا بیساکھی کا میلہ منانے امرتسر جا رہا تھا جیسے ہی میں ہسپتال کی گیلری میں داخل ہوا تو دیکھا کہ ایک زخمی کو اسٹیچر پر لایا جا رہا ہے جس کے کپڑے خون سے لت پت تھے ہمارے لئے یہ معمول کی بات تھی کیونکہ ہم تو روز ایسے کیس دیکھتے تھے بلکہ اس سے بڑھ کر ملاحظے کیلئے آئی ڈیڈباڈیز بھی روزانہ ہی دیکھنے کو ملتی ،لیکن جیسے ہی میں تھوڑا آگے ہوا تو دیکھا کہ ایک اور اسٹیچر آ رہا ہے اور ایک زخمی ۔

خیر چلتا چلتا جیسے ہی ایمرجنسی والی گیلری میں داخل ہوا تو کہ دیکھا کہ بیسیوں لوگ جمع تھے ،کوئی سر پکڑ کر بیٹھا ہے توکوئی لنگاتا ہوا چل رہا تھا ،ہیلتھ ورکرز کی دوڑبھی ایسی ہی تھی کہ جیسے واقعی ہی بہت بڑی ایمرجنسی آئی ہو ،اتنے میں ایمبولینس کے سارن کی آواز آئی اور دیکھا کہ چنگاڑتی ہوئی ایمبولینس آرہی ہے جیسے ہی رکی تو زخمی اس طرح لوڈ تھے جیسے کہ کسی جنگ سے زخمی بھر بھر لا رہی ہو ،ایک ایمبولینس خالی ہو کر چلی ہی تو دوسری آ گئی ،دوسری گئی تو تیسری آ گئی ،ابھی تک تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کیونکہ ایک پانچ سے چھ سال کے بچے میں سمجھ بوجھ کی صلاحیت ہی کتنی ہوتی ،ساتھ ہی شہر کی مسجد سے اعلان کی آواز آنے لگی کی جس کسی سنی بھائی کے پاس اسلحہ ہے وہ لے کر فلاں سنی مسجد میں پہنچ آئے ،پھر ساتھ ہی ایک اورجگہ سے اعلان کی آواز آئی کہ جس اہل تشیع کے پاس اسلحہ ہے وہ لے کرفلاں امام بارگاہ میں اکٹھے ہو جائیں ،شہر چونکہ ہسپتال سے دو سے تین کلومیٹر ہی دور تھا تو اعلان کی آواز صاف سنائی دیتی تھی اورایسے کتنے ہی اعلان جو میں نے اپنے کانوں سے سنے کہ فلاں فلاں جگہ پر اسلحہ لے کر پہنچ جائیں ،ایمبولینس اسی تسلسل کیساتھ آجا رہی تھی سارے ضلع کی ایمبولینس دیکھتے ہی دیکھتے اکٹھی ہو گئیں ،یہ ایک شیعہ ،سنی تصادم تھا جس کی تفصیل ایک طویل تحریر کی محتاج ہے ۔


ابھی تو بھرپور سنگھ کے دادا جی بھی تیار ہو گے تھے لیکن گھر والوں کے دل میں ایک خدشہ تھا کہ آئے روز انگریز سرکار ظلم و ستم کی داستانیں رقم کرتی ہے اور ان دنوں تو انھوں نے امرتسر میں مارشل لاء لگایا ہوا تھا کوئی بندہ کسی جگہ پر کوئی تقریب نہیں کر سکتا لیکن بیساکھی تو ایک تہوار تھا اور پھر ایسا تہوار جس میں مذہب شامل ہو جائے تو اس کے لئے تو پھر لوگ سر دھڑ کی بازی بھی لگا دیتے ہیں ،جیسے اوپر میرے والے واقعے میں ایک تہوار کی وجہ سے کئی لوگ جان سے گے اور سینکڑوں کے قریب زخمی ہوئے ۔


لیکن اس ساری پابندی کے باوجود ہندوستانی بضد تھے کہ بیساکھی کامیلہ تو جلیانوالہ باغ ہی میں کریں گے اور یہ ایک میلے کے ساتھ ساتھ احتجاج بھی تھا انگریز سرکار نے دو قومی راہنماؤں ڈاکٹر سیف الدین اور ستیا پال کو گرفتار کیا تھا ۔امرتسر کے ہرچوک میں ،ہر دیوار پر ایک ہی نعرہ آویزاں تھا کہ ”بیساکھی کا میلہ کہاں کریں گے،جلیانوالہ باغ کریں گے“
ہزاروں کی تعداد میں لوگ جلوس کی شکل میں جلیانوالہ باغ پہنچے جن میں بلا تفریق ِمذہب و جنسیت سب شامل تھے ،4سال کے بھرپور سنگھ سے لے کر اسکی سفید داڑھی والے دادا جان بھی تھے ،شیر خوار بچوں کو لئے رتن دیوی جیسی بہادر عورتیں بھی تھیں ۔

جلیانوالہ باغ میں ایک بڑی عجیب سی رونق تھی مسلمان ،سکھ ،ہندو ،سب ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے بیٹھے تھے ،رنگین ملبوسات میں عورتیں اس تصویر کا خوبصورت رنگ تھیں ،بچے باغ میں ادھر اُدھر کھیلتے اپنی معصومیت ظاہر کر رہے تھے ،سفید داڑھی والے بزرگ بڑی پگیں پہنے جھکی پلکوں کیساتھ آنکھوں میں آزادی کی امید لئے بیٹھے تھے ،نوجوان جو ش و جذبے سے آزادی کے نعرے لگا رہے تھے ۔

جلیانوالہ باغ کے اس منظر کو اگر کوئی فیبلو پیکاسو یا لیونارڈو اپنی پینٹنگ میں پینٹ کرتے تو شاید یہ ان کا سب سے بڑا شاہکار ہوتا۔
اس سجے سجائے میلے کو کسی کی سخت نظر کھا گئی ،ڈھلتے سورج کے ساتھ تاریخ میں ایک سیاہ دھبہ ،جرنل ڈیر اپنے درجنوں سپاہیوں سمیت باغ میں داخل ہوتا ہے ، باغ کے دروازے کے اندر کھڑا ہو کر اپنی متکبرانہ آواز میں فائر کا آرڈر جاری کرتا ہے ،فوجیوں کی بندوقوں سے آگ نکالتی ہوئی 3انچ کی گولیاں لوگوں کے آر پار ہونے لگتی ہیں ،گولی نا دیکھ رہی ہے کہ سامنے بچہ ہے ،بوڑھا ہے یا کوئی عورت بس اپنا کام دکھا رہی ہے،10سے15منٹ کی اس مسلسل فائرنگ نے اُس جنت نما رونق کو جہنم میں بدل دیا ،باہر نکلنے کا کوئی دروازہ نہیں تھا لوگوں کو دیواروں پر چڑھتے ہوئے گولیاں ماری گئیں جن کے نشان آج بھی اس سفاک کی درندگی کی داستان سناتی ہیں ،باغ میں موجود کنویں میں چھلانگیں لگانے والوں کی بھی بعد میں لاشیں ہی نکالی گئیں ،دادا جی نے بھرپور سنگھ کو تو 7فٹ کی دیوار سے پار پھینک کر بچا دیا لیکن بھرپور جیسے کئی ننھے اس ظالم کی گولیوں کا نشانہ بنے ۔

اس سانحے میں ہزاروں لوگ شہید ہوئے اور کئی ہزار زخمی ،یہ انسانی تاریخ کا ایک سیاہ دن تھا رہتی دنیا تک جرنل ڈیر پر لعنتیں برستی رہیں گی اور شہیدوں کو تاریخ سلام پیش کرے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :