کھانے پر بد نظمی

جمعرات 23 ستمبر 2021

Saad Iftikhar

سعد افتخار

آئے روز سوشل میڈیا پر کوئی نا کوئی وائرل تصویر یا ویڈیو دیکھنے کو ملتی ہے جس میں ایک فوج ظفر موج کھانے پر اس طرح ٹوٹ رہی ہوتی ہے جیسے کہ پورس ،سکندر کے خلاف پھر سے اٹھ کھڑا ہو ،کوئی تلوار نما چمچے لہرا رہا ہوتا ہے تو کوئی پلیٹ کو بطور ڈھال استعمال کر رہاہوتا ہے اور جس کو چمچا نہیں ملتا وہ ہاتھ سے ہی بیلچے کا کام لے رہا ہوتا ہے ،ہال میں مچا شور ،پلیٹوں کے گرنے کی آواز ،کپڑوں پر گرتا سالن یہ سارا منظر ایک ایسی منظر کشی کرتا ہے کہ جیسے ورلڈ وار کے بعد قحط کے زمانہ میں کھانے کیلئے اتنی مشقت ہو رہی ۔


یہ عمل کسی خاص طبقے ، گروہ یا کلاس میں دیکھنے کو نہیں ملتا بلکہ اس میں سب برابر ہی ہوتے ،کچھ عرصہ پہلے لاہور بارکے الیکشن میں کھانے پر دھنگا مشتی ہوئی پھر ایسی ہی گرما گرمی انجینئرز کے پروگرام میں دیکھنے کوملی تو ایسے واقعات بظاہر پڑھے لکھے طبقات میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔

(جاری ہے)


ایسی کسی ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد دانشوروں کی ایک خاصی تعداد کھل کر اس عمل اور طبقے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جو کہ ہونا بھی چاہیے اور ساتھ ہی قوم کی اخلاقی گراوٹ جیسی اصطلاح بھی دیکھنے کو ملتی ہے بلکہ ویڈیو کو ایڈٹ اس انداز سے کیا جاتا ہے کہ ایک سائیڈ پر کتے لائن میں بیٹھ کر کھانا کھا رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف ہماری جاری جنگ ۔

تنقید کرنا اچھی بات ہے بلکہ جب تک کسی قوم میں ناقد پیدا نہیں ہوں گے تو وہ خوش فہمی اور خود فریبی میں ہی ماری جائے گی جیساکہ ہم بھی ایک عرصہ تک بڑے خوش فہم ثابت ہوتے چلے آئے ہیں اور جس کا نقصان آج تک ہم بھگت رہے اور اس سے جان چھڑاتے چھڑاتے ابھی کئی نسلیں لگیں ،خیر ہم نے تنقید کرنا شروع تو کی چاہے مخالفین پر ہی سہی اپنی وابستگیوں کے علاوہ۔


لیکن اچھی تنقید کرنے کے کچھ قواعد و ضواط ہوتے ہیں کچھ اصول ہوتے ہیں کہ جس مسئلے پر تنقید کر رہے اس کے محرکات کو بھی جانتے ،واقعے کا پس منظر کیا ہے، حالات کیا تھے جب یہ سب ہوا،اگر ان سے بے خبر ہیں تو ساری تحریر،سارا لیکچر ،ساری پوسٹیں ایسے ہی ہوں گی جیسے کہ کوئی سستی عطر پانچ منٹ بعد ہی اپنی خوشبو اڑا دے،لیکن اگر آپ کی تنقید بعد از تحقیق ہے تو یہ کہیں نا کہیں اصلاح کیلئے سود مند ثابت ہوگی۔

میں نے جب یہ کھانے پر بد نظمی کو سمجھنے کی کوشش کی تو مجھے اخلاقی گراوٹ کے علاوہ بھی کئی اور چیزیں نظر آئیں جن کی طرف کبھی ہمارا دھیان ہی نہیں جاتا ،دوسری کئی وجوہات انتظامیہ کے ذمہ ہیں جس وجہ سے کھانے پر پورس اور سکندر کی فوجیں کھلتی ۔
پہلی بنیادی وجہ کہ کھانا اپنے ٹائم سے بہت دیر بعد دیا جاتا ہے ،پروگرام اگر دوپہر کے کھانے کاہے تو کھانا عصرکے بعد شام کے قریب دیا جائے گا یا کوئی بڑی بھی جلدی کر لے تو عصر تو ہو ہی جاتی ،ایک بندہ جس نے صبح کا ناشتہ بھی ہلکا کیا کہ آج دوپہر کا کھانا شادی یا فنکشن کا ہے تو جب وہ صبح سے عصر تک پیٹ کو باندھ کر رکھے ہوئے ہے اب کھانا کھلتے وقت آپ اس سے کس تمیز اور اخلاقیات کی توقع کر رہے ہیں ؟ اسی طرح اگر فنکشن رات کا ہے تو بھی یہی صورت حال ہوتی ۔

اس سارے مسئلے کا ذمہ داربھی عوام کو ٹہرایا جاتا اور وہ کسی حد تک ہیں بھی کہ مہمان آتے ہی بہت لیٹ ہیں،ان کے ذہن میں بھی یہی بات پک چکی ہے کہ کھاناتو لیٹ ہی ملنا پہلے جا کر بیٹھنے کا کیا فائدہ۔اسکا بڑآسان حل یہ ہے کہ آپ اپنے ٹائم پر کھاناکھلانا شروع کر دیں ،جیسے جیسے کوئی جتنی دیر سے آتا جائے کھانا کھاتا جائے اب چاہے کھانا ٹھنڈا ہو ،برتن صاف نا ہوں، ٹیبل پر سالن روٹی بچا پڑا ہو ۔

آپ اپنے کسی ایک فنکشن پر ایسا کر دیں اگلے ہر فنکشن پر پورا خاندان وقت پر ہوگا ۔لیکن مہمان تو مہمان رہ گے ہم کسی ایک بندے کے انتظار میں پورا فنکشن روک کر رکھتے ہیں کسی کے سیاسی لیڈر نے آنا ہے تو کسی کے پیر صاحب نے۔
دوسری وجہ یہ کہ مہمان کا حق ہوتا ہے کہ کھانا اسکو خود پیش کیا جائے (کھانا ہر ٹیبل پر دیا جائے) اگر بوفے لگانا ہی ہے تو ہال کے ٹیبل گن کر ہر بوفے کو 2سے4ٹیبلز کیساتھ مینج کیا جائے تاکہ کہیں پر رش بنے ہی نا ،لیکن جب 500کے ہال میں ٹوٹل چار بوفے لگنے بدنظمی تو ہو گی ہی ۔

کوشش کریں کھانا میزوں پر ہی لگوائیں اگر ممکن نہیں تو پھر بوفے اتنے لگوائیں کہ ہر بندہ پہلی فرصت میں کھانا حاصل کر سکے۔
تیسری وجہ میرج ہال کی انتظامیہ کے ذمہ ہے اپنی منافع خوری کے چکر میں کھانا اتنے تنگ ہاتھ سے بناتے کہ لوگ دوسری بار نا ملنے کے خوف سے لوگ صبر نہیں کر پاتے ۔کھیر ایک بار آئی ہے تو دوسری بار نا ملنے کی روایت ہے ،بھئی دو کی بجائے کو ئی چار بار کھائے تم انتظام کرو ۔

لیکن یہاں بھی گھر والے سب ہال والوں پر چھوڑ کر خود مصروفیات سے فارغ ہوتے۔
ان کے علاوہ بھی دیگر کئی وجوہات ہیں ،جیساکہ کئی لوگ اچھا کھانا صرف شادیوں پر ہی کھا سکتے اسی لئے جب وہ ڈال زیادہ لیتے ہیں لیکن کھا نہیں پاتے وہ بچا ہوا کھانا سارا ضائع ہو جاتا جس کی وجہ سے بھی کھانے میں قلت ہوتی ،علاوہ اس کے اور بھی ہیں لہذا سارا الزام قوم کی اخلاقی گراوٹ پر ڈالنے کی بجائے پہلے اپنے انتظامات کو اچھا بنا لیں ۔

نہیں تو کسی بڑے مہذب بھوکے کے سامنے بھی کھانا رکھو تو وہ ساری تہذیب بھول جائے گا ۔میں خود جب کبھی شدید بھوکا ہوں تو کھانے کے اداب بھول جاتا جو نفاست عام دنوں میں نظر آتی وہ ساری اڑن چھو ہو جاتی ،آپ بھی کبھی آزمائیے گا کہ جب پیٹ میں بھوک کی آگ کے بھانبھڑ پورے زوروں پر ہوں تو پھر یاد رہتا کہ نوالے چھوٹے لینے ہیں ،کھانا چبا کر کھانا ہے ،پانی پہلے پینا ہے ،یقینا آپ ایسا نہیں کر پائیں گے۔
وقت کی پابندی کریں ،اپنے انتظامات اچھے کریں ،کھانے کو منظم ترتیب سے دیں ،سب کچھ ہال والوں پر چھوڑنے کی بجائے نگرانی خود کریں ،یقین جانیں ان سارے معاملات سے قوم کی اخلاقی گراوٹ میں 80%بڑھاوت کے امکانات ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :