دیوسائی

جمعرات 10 فروری 2022

Saad Iftikhar

سعد افتخار

سکردو شہر سے اس نیت کیساتھ نکلے کہ آج رات کی کیمپنگ صدپارہ جھیل کے کنارے کریں گے ۔اُنچائیاں چڑھتی گاڑی جب 20منٹ بعد صدپارہ جھیل پر پہنچی تو بلکل خاموش سی جان پڑی تھی ،ہوا کے جھونکوں سے جھیل کی بالائی تہہ سلور رنگ کی لہروں کیساتھ حرکت کرتی تھی تو اسکے جاندار ہونے کا احساس ہوتا تھا ،صدپارہ جھیل بہت بڑی لیکن روڈ سے کافی گہرائی پر تھی کیونکہ اب وہ منی ڈیم کے طور پر استعمال ہوتی تھی اور پاور پراجیکٹس بجلی پیدا کر کے سکردو اور مضافات تک ترسیل کرتے ہیں۔


 صدپارہ جھیل کے چہرے پر مجھے وہ رونق نظر نہیں آئی جو عطاآباد کے چہرے پر دیکھنے کو ملتی ہے ،ایک بری بات یہ بھی تھی کہ ہم یہاں کیمپنگ نہیں کر سکتے تھے کوئی کیمپنگ سائٹ ہی نہیں تھی صرف ایک کیفے تھا جہاں آپ چائے پانی کر سکتے ہیں ،چار تصاویر بنوانے کے بعد ارادہ کیا کہ رات صد پارہ گاؤں گزارتے ہیں کیونکہ شام ڈھلنا شروع ہو گئی تھی ۔

(جاری ہے)

اسی گاڑی پر صدپارہ پہنچے ،گیٹ وے ہوٹل کے سامنے ہمارا سامان ایسے پڑا تھا جیسے زمانہ قدیم میں بیٹھے مسافر کسی قافلے کے انتظار میں ہوں ،ہمارا ارادی کیمپنگ کا تھا لیکن گیٹ وے نے ہمیں کمرہ آفر کردیا۔


جون کا مہینہ جو ٹوورازم کا سیزن سمجھا جاتا ہے اُن دنوں میں بھی ہم ہی واحد مہاجر تھے جنہوں نے وہ رات گیٹ وے گزاری،اسکی ایک وجہ یہ تھی کہ لوگ یا تودسکردو میں ہی رک جاتے یا پھر آگے شہنشاہ سیاحت دیوسائی کی آغوش میں پناہ گزیں ہوتے ۔میں نے ایک دفعہ لاہور سیورفوڈ کے باہر بلکل ساتھ ایک چاولوں والی ریڑھی دیکھی ،آخر وہ ریڑھی والا کتنا خود اعتماد تھا کہ اُس سیور کے باہر چاول لگا کر بیٹھا ہے جس کے چاول کھانے کیلئے کھڑے ہو کر میز کے خالی ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے تو صدپارہ گاؤں بھی ایک ایسی ریڑھی تھی جو دیوسائی کے سائے میں لگی ہوئی تھی اور وہ ہم ہی تھے جنھوں نے رات اُس ریڑھی کے چاول کھائے اگر ہم لیٹ نا ہوتے تو رات دیوسائی پہنچتے۔

رات کھانے میں دال مونگ بنائی لیکن ساتھ کچھ سخت قسم کا میٹھا کھانے کو دل چاہ رہا تھا بندہ پنجاب کا ہو اور میٹھے کی طلب نا ہو معیوب سی بات ہے ۔لہذا رات 10بجے حافظ صاحب اور گجر صاحب مہم پرنکلے کہ سُوجی یا سویاں لے کر ہی آئیں گے کیونکہ عشاء کے بعد نا تو یہاں کوئی دوکان کھلی ہوتی ہے اور نا ہی کوئی دوکان والا ،لیکن ہمارے جوانوں کو کامیابی ہوئی اور پوچھنے پر بتایا کہ سویاں کسی کے گھر سے مانگ کر لائیں ہیں اور جس گھر سے مانگی ہیں انھیں اردو سمجھ ہی نہیں آرہی تھی پھر رات کو پرائمری کے طالب علم کو بلا کر ترجمہ کروایا کہ دیکھو یہ اجنبی لوگ رات کے اس پہر کیا سوال کر رہے ہیں ؟تو انھیں پتہ چلا کہ مہمانوں کو سویاں چاہیئے ،اللہ اجر دے انھیں ہمیں سویاں بھی دی اور نیند سے بھی مخل ہوئے ۔

صدپارہ میں کال کیلئے بھی دو کلو میٹر کی انچائی پر جانا ہوتاتھا اور پھر بھی صرف ایس کام کے سگنلز آتے تھے میں نے کام کے سلسلے میں دو،تین کالیں کیں مطلب دو سے تین چکر اُس بالائی جگہ کے جہاں پر سگنلز نازل ہوتے تھے تاہم ٹیکنالوجی کی دنیا سے دور یہ رات ہماری بڑی پُر سکون گزری ۔
صبح ناشتے کے بعد ہوٹل سے ہی گاڑی لی اور دیوسائی کی طرف نکل گے ،جیسے جیسے ہم دیوسائی کی چڑھائیاں چڑھتے جا رہے تھے ویسے ویسے ہوا ، بہتے پانی اور آسمان ایسے صاف ہو رہے تھے کہ آسمان کی نیلاہٹ آنکھوں کو چُبنا شروع ہوگئی کیونکہ ہماری آنکھ کبھی اتنے صاف شفاف آسمان کو دیکھنے کی عادی ہی نا تھی جیسے صاحب ِطور کی آنکھ ”اسے“ دیکھنے کی عادی نا تھی ،دیوسائی نیشنل پارک میں انٹری کے بعد ہچکولے کھاتے ہوئے اوپر کی جانب بڑھتے گے اور جو شدتِ وصل تھی اس میں بھی اضافہ ہوتا گیا ،جیسے ہی ہم دیوسائی ٹاپ پر پہنچے تو ایک خوبصورت نا بھولنے والا نظارہ تھا ،وہاں پانچ منٹ ہم رکے ہی تھے کہ برفباری شروع ہو گئی جیسے کسی دلہن کو گلاب کی پتیوں سے خوش آمدید کیا جاتا ہے ،ساتھ ہی علی ملک ٹاپ پر لگا جیمر گھومے جا رہا تھا ،جیسے ہی علی ملک پار کیا تو شتونگ کی چوٹیوں نے دید کروائی انکی چوٹیاں برف سے ڈھکی تھیں اور ترتیب میں کھڑی جیسے کسی خاص کی اِک عرصے سے منتظر ہوں،اب برجی لاء سے آنے والے پانی نے ہمیں ساتھ لے لیا کیونکہ اس نے ٹوور گائیڈ کی حیثیت سے ہمیں بڑا پانی چھوڑنا تھا ۔

مستنصر حسین تارڑ کی کتاب دیوسائی پڑھنے کے بعد میرے دل میں بھی ایک بڑی خواہش تھی کہ میں بھی برجی لاء سے عظیم پہاڑوں کا دیدار کروں جہاں سے کے ٹو،مشابرم اور چوغولیزا کو دیکھوں ،اس راستے کے بہتے پانی دیکھوں ،اس راستے کی فروزا جھیلیں دیکھوں لیکن ابھی یہ میرے نصیب میں نہیں تھا شاید وصل میں ابھی وقت باقی ہے ۔
برجی لاء سے آنے والے اس گائیڈ نے ہمیں بڑے پانی پہنچا دیا ،جہاں چار ٹینٹ وائلڈ لائف والوں کے نصب تھے اور کوئی10ٹینٹ وہاں کھوکھے والوں کے تھے جو بریانی ،چائے اور دیگر کھانے کی چیزیں مہیا کر رہے تھے ،بڑا پانی دیوسائی میں کیمپنگ سائیٹ ہے جہاں پر آپ اپنا ٹینٹ لگا سکتے نہیں تو کھوکھے والوں کے تنبو تو ہے ہی ۔

ابھی بس اسی مشاہدے میں تھے کہ کیا ہے کیسے ہے کیوں ہے کس کا ہے ؟دیکھا کہ استور کی جانب سے ایک گاڑیوں کا بڑا لشکر دُھول اڑاتا ہوا آرہا ہے ،کوئی 15پراڈوز 1ایمبولنس ،2سے4سکواڈ کی گاڑیاں ٹوٹل کوئی 25کے قریب تھیں ،اللہ خیر کرے کون آرہا ہے جو اس قدر پروٹوکول دیا جا رہا ہے ،لشکر قریب آیا تو دیکھا کہ گورنر سندھ عمران اسمعیل صاحب آئیں ہیں وہ آجکل فیملی کیساتھ بلتستان کی سیر کو نکلے ہوئے تھے ۔

بس پھر لگ گئی سیلفی والوں کی قطار سوائے میرے۔بڑے پانی سے اگر چھوٹے دیوسائی کی طرف نظر اٹھتی ہے تو قطار در قطار سفید چادریں اوڑھے پہاڑ کھڑے ہیں جس کے پارچھوٹا دیوسائی ہے ،بلیک ہول والی سائیڈ پر آپ جا نہیں سکتے کیونکہ وہاں جانے کیلئے آپ کو وائلڈ لائف والوں کی اجازت درکار ہوتی ہے بلکہ وہ اپنا گائیڈ ساتھ بھیجتے ہیں ۔
دیوسائی آج بھی ہماری مادیت پرستی کی دنیا سے کہیں دور سیاحوں کیلئے شفاف کورے بدن والی دلہن ہے،جہاں موسموں کو بھی خود پر اختیار نہیں ہوتا کبھی برفباری شروع ہو جاتی ہے اور کبھی ساتھ ہی سورج میاں بادلوں کی اوڑھ سے آنکھ مچولی کرتے ہیں ،کہیں سینکڑوں رنگ کے پھول آپکو محظوظ کررہے ہیں تو کہیں شفاف پانی میں آپ اپنے چہرے کی چمک دیکھ رہے ہیں ،کبھی شیوسر آپ کو سحر میں مبتلا کر دے گی تو کبھی مارموٹ کی شرارتیں اور پیچھے والی ٹانگوں پر کھڑے ہو کراسکی گندی آوازیں لگانا خوشی کا باعث بنتا ،باقی بھورا ریچھ اور برفانی چیتا وہ تو بڑے لوگ ہیں جب کبھی دل کرے تو نیچے آ کر ہیلو ہائے کر جاتے ہیں ۔

ایک سیاح جو قدرت کو محسوس کرتا ہے اس کیلئے دیوسائی کو بھولانا ناممکن ہے ،شفاف پانیوں کی یہ سر زمین جہاں دنیا کا نایاب ریچھ پناہ گزیں ہے مجھے ہمیشہ اپنے پاس بلائے بلکہ ہم عاشقوں کیلئے تو ایک چھوٹا سا دار البقا ء بھی یہاں ہونا چاہیئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :