تمسخر دین کی بڑی وجہ انتہاء پسندی ۔قسط نمبر 2

ہفتہ 5 دسمبر 2020

Saad Iftikhar

سعد افتخار

 جب بھی کسی کام میں اعتدال کو چھوڑ کر شدت اختیار کی جائے وہ انتہا ء پسندی کے زمرے میں آتا ہے ، شدت اور انتہا ء دو نوں مترادف ہیں ۔اب یہ شدت جس بھی کام میں ہو گی وہ باعث خیر کی بجائے باعث ضربن جائے گا اور یہ انسانیت کیلئے مضر سمجھا جاتا ہے ۔ اسی لئے اسلام نے بڑے واضح طور پر اسکی ممانعت فرمائی ۔ ”لا اکراہ فی الدین“ (دین میں کوئی جبر نہیں )قرآن نے جبر کی نفی کر کے انتہاء پسندی اور شدت کواسلام سے الگ کر دیا ۔


جیساکہ پہلے ہی ذکر ہوا کہ انتہاء پسندی مضر انسانیت ہے چاہے وہ کسی بھی معملات میں ہو ۔اللہ سبحانہ وتعالی کو بڑا پسند ہے کہ اسکا بندہ اس کے سامنے سجدہ ریز ہو ،راتوں کو جاگ کر اسکی حمد بیان کرے لیکن جب نبی پاک ﷺنے قیام الیل میں زیادتی کی تو اللہ رب العزت نے فورا حکم ارشاد فرمایا کہ اے چادر اوڑھنے والے والے (نبی)رات کا کچھ حصہ قیام کریں یا نصف شب یا پھر اس سے کچھ زیادہ ۔

(جاری ہے)

کیونکہ نبی کی زندگی امت کیلئے اسوہ ہوتا ہے اس لئے امت کیلئے گراں تھا کہ دن کو دنیاوی معملات دیکھیں اور رات ساری قیام کریں ،یہاں سورہ المزمل میں اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کو مخاطب کرتے ہوئے میانہ روی اور اعتدال کا حکم ارشاد فرمایا ۔
اسی اثناں میں ایک روایت ہے کہ بنی پاکﷺ نے ایک دفعہ دیکھاکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کمزور ہیں ضعف چہرے پر نمایا ں ہے تو آپ نے وجہ دریافت فرمائی تو اصحاب عرض کرنے لگے حضور ہم بھی آپ کی طرح بنا سحر وافطار کے روزے رکھ رہے ہیں جس پر نبی پاک ﷺ نے منع فرما دیا ۔


اسی طرح ایک شخص بارگاہ نبوت میں حاضرہوا اور جہاد کی اجازت طلب کرنا چاہی نبی پاکﷺ نے پوچھا کیا تمہارے والدین ہیں تو اس شخص نے عرض کی نعم یا رسول اللہ ، تو آپ نے فرمایا جا کر انکی خدمت کر یہی تیرا جہاد ہے ۔اس روایت سے یہ بات واضع ہوئی کہ اگر عائلی زندگی میں فرائض باقی ہوں تو مذہبی معملات کو ان پر مقدم نہ جانو۔
 متعد ہا احادیث موجود جس میں نبی پاک ﷺنے اعتدال پسندی اور میانہ روی کاحکم ارشاد فرمایا ہے ایک اور حدیث جسکا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ میانہ روی اختیار کرنے والا کبھی ہلاکت کا شکار نہیں ہو گا ۔

خود قرآن حکیم نے باربار شدت پسندی کی ممانعت فرمائی ۔کبھی ”کنتم خیرا مة“ اور کبھی ”جعلنکم امة وسطاالتکونوا“ کہہ کر اپنے ماننے والوں کو مخاطب کیا ۔یہ تمام القابات شدت پسندی اور انتہاء پسندی جیسی فالتو چیزوں کی نفی کرتے ہیں ۔
اسلام نے تو انسانوں کے جذبات و احساسات تک کا بھی احترام کیا ،آج اگر کوئی اسلام کو شدت پسندی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتا ہے تو کم از کم ہمیں اسلامی تعلیمات سے اگاہ ہونا چاہیئے تاکہ دین کے تحفظ میں کوئی کسر نہ آئے لیکن اس سے بھی جو چیز ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے کسی فعل سے اسلام کو تضحیک کا نشانہ نہ بنایا جائے ہمارے ہر کام میں اعتدال اور میانہ روی ہونی چاہیئے۔


جیساکہ ہم جذبات و احساسات کے احترام کی بات کر رہے تھے تو اسی ضمن میں ایک روایت ہے جو بڑی ہی لطیف اور ایمان کو تازہ کردینے والی ہے ،ذاتی طور پر میں اس روایت کو پڑھ کرکتنی ہی دیر بعد تک اس کی حلاوت کو محسوس کرتا رہا ۔حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے تو حضور کو قریب سے دیکھا ہے تو ہمیں بتائیں کہ آپ کے اخلاق کیسے تھے ؟ تو انھوں نے ان کے جواب میں تاجدار کائنات ﷺ کے اخلاق حسنہ بیان کرنا شروع کر دئے اور پھر فرمایا کہ حضور صحابہ کی محفل میں بیٹھے ہوتے تو بعض اوقات کوئی شعر و شاعری شروع کر دیتا یا زمانہ جاہلیت کا کوئی قصہ سنا کرہنسنے لگتے تونبی پاک ﷺ بھی ان کی بات پر ان کے ساتھ مسکرا دیتے تاکہ وہ محسوس کریں کہ جو بات وہ کہہ رہے ہیں میں بھی اسے انجوائے کر رہا ہوں ۔


آج ہم اگر چار بندوں میں بیٹھ کر کوئی بات کریں اور ہمیں اس کی داد نہ ملے یعنی اگر افسوس والی بات تھی تو سننے والے اپنے چہرے کے تاثرات سے افسوس ظاہرنہ کریں یا پھر بات مزاح کی تھی اور سامعین اس پر ہنسے نہیں تو سنانے والا اندر ہی اندر بڑی شرمندگی محسوس کرتا ہے بظاہر چاہے وہ اس کو محسوس نہ کرائے لیکن وہ اس کہ شرمندگی محسوس کرتا ہے کہ آیا میں نے بات کو سہی طریقے سے بیان نہیں کیا یا میری بات ہی بے وزن تھی ۔

لیکن سبحان اللہ کا عظیم خلق ہے ہمارے نبی کا کہ صرف اس لئے مسکرا دیتے کہ اسے احساس شرمندگی نہ ہو ،حضور اپنے اصحاب سے لاتعلق نہ ہوتے وہ شاعری کرتے تو آپ یہ نہ فرماتے کہ میرا شاعری سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ان کے ساتھ مانوسیت ظاہر کرتے ۔ہائے! مگر آج پینٹ شرٹ پہننے والا ڈرتا ڈرتا مسجد میں جاتاہے ،کلین شیو مولانا کو دیکھ کر راستہ بدل لیتاہے۔


یہ عظیم خُلق تھا اس عظیم انسان کاجس کا نام استعمال کر تے ہوئے ہم آج ہر دوسرے شخص کو تحقیر ، تضلیل ،تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں ۔فاسق و فاجر،گستاخ اور کفر تک کے فتوے لگاتے ہیں ۔آج 100میں سے بمشل 2یا 3فیصد لوگ کتاب میں جا کر جابر بن سمرہ کی زبان سے اسلام کی تشریح پڑھتے ہیں باقی 98فیصد میرے اور تمہارے رویے کو دیکھ کر اسلام کو جانتے ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ جب انھوں نے ایک خودکش دہشتگرد کے منہ سے اللہ اکبر سنا تو انھوں نے اسلام کو ہی دہشتگرد کہنا شروع کر دیا ،کہاں جا کر کوئی دیکھتا ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر انسانی جان کے تحفظ کیلئے اپنے سگے چچا کا کلیجہ چبانے والی کو معاف کرنے والے نبی کا لایا ہوا دین ہے۔
جس طرح پہلو خان کاقتل ہوتے دیکھ کر ہم ہندؤں کو انتہاء پسند کہتے ہیں اسی طرح شہزاد اور شمع والے کیس کو دیکھ کر ہمیں بھی انتہاء پسند کہا جاتا ہوگا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :