بے باک‎‎

پیر 30 اگست 2021

Saadia Muazzam

سعدیہ معظم

زندگی کی غلیظ ترین حقیقت ہے.. تمہیں ایک شے ایک میکنزم کے طور پر استعمال کیا جانا کتنی گندی بات ہے.. عورت خود کو استعمال کیے جانے پر مرد کو معاف نہیں کر سکتی.. "
اوشو
عورت مارچ سے لےکر حقوق نسواں تک مرد کے مقابل آتی عورت رشتے میں یاتو اس کی دوست ہے یا پھر بیوی۔حقوق نسواں میں کبھی مائیوں یا بہنوں کےلئے اجتماعی کوششیں ہوتی نظر نہیں آئی ۔


خون کے رشتے جسم کے رشتوں پہ فوقیت رکھتے ہیں ۔چھوٹی بہن کی چوٹیاں یاد رہ جاتی ہیں پر بیمار بیوی کی دوا بھول جاتی ہے ۔ہمارے معاشرے کاتقاضہ ہے کہ جسمانی تعلقات کےلئے باقاعدہ نکاح کاحق دیاجائے ۔اسلام نے بہت خوب صورتی کے ساتھ اس تعلق کو متعین کیاہے ۔لیکن عام روائت یہی دیکھی گئی ہے کہ شادی شدہ عورت اس تعلق کو نبھاتے نبھاتے کبھی کینسر جیسے مرض میں مبتلا ہوجاتی ہےیا پھر لیبر روم کے بیٹ پر ہی اپنی آخری سانس لیتی ہے ۔

(جاری ہے)


منٹو اور اوشو کو پڑھو تو لگتاہے کہ ان مردوں نے عورت کی روح کو پڑھا ہے انہیں اس بات سے سروکار نہیں کہ عورت کی زلفیں سیاہ ہیں ۔آنکھیں ہرنی جیسی ہیں یاکمر صرہائی جیسی ہے ۔وہ عورت کے اس کرب کو لکھتے رہے جو انہیں نظر آیا۔
معاشرے میں ایک طرف عورت تیزاب ڈال کربدصورت بنائی جارہی ہے تو دوسری طرف اپنے سکون کےلئے اٹھائے کےاقدام پر اسے بدکردار ٹہرادیاجاتا ہے ۔


اولاد کی ذمہ داریاں ڈال کر مرد سنگ دل اپنی ذمہ داریوں سے آزاد ہوجاتا ہے اور یہی سے وہ خلا پیدا ہوتا ہے جوکمزور عورت کواس کے گھر سے دور کرنا شروع کردیتا ہے اور بلآخر وہ اپنی نامکمل خواہشات کو پورا کرنے کےلئے اپنا گھر بار چھوڑ دیتی ہے یا پھر اس مرد کو ہی ختم کرکے نیا ساتھی چننے کے لئے غلط راستہ اختیار کرلیتی ہے ۔جہاں ایک نہیں کئی زندگیاں تباہ ہوجاتی ہیں ۔

کاش اس طرح کے واقعات رونماہونے سے پہلے اس پہلو پہ کونسلینگ ہوا کرے، مرد کو اس کی ذمہ داری بتائی جائے وہ عورت کو مشین کے میکنزم کی طرح استعمال کرنے کے بجائے اسے تحفظ کااحساس دلائے ۔
دنیامعرض وجود میں آئی تو پہلا قتل ہونے کی وجہ ایک عورت ہی تھی اس وقت روٹی کپڑا مکان کی جنگ نہیں تھی جنگ تھی توعورت تو اب اس دور میں ہم عورت کی اہمیت کو کیونکر بھلا سکتے ہیں ۔

عورت معاشرے میں ایک اہم کردار رکھتی ہے اگر معاشرہ بگاڑ کی طرف جارہاہے تو اس کی اصل وجہ بھی عورت ہے ۔میں بذات خود یہ تجربہ رکھتی ہوں کہ مرد صرف عورت میں دلچسپی لیتاہے اسے اس کی عمر اس کی جسامت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا وہ ایک نفقطہ بچہ ہے وہ بچہ جو ہر چیز حاصل کرنا چاہتا ہے چاہے اس کے پاس ہر نعمت موجود ہواب یہ عورت پہ منحصر ہے کہ اسے ڈپٹ کر بھگا دے یا اس کی لالچ کا فائدہ اٹھائے اور اس کی لالچ کا فائدہ اٹھاتے اٹھاتے اپنا نقصان کربیٹھے۔


ہرطرف واقعات کاانبار ہے ۔
جب منٹو “ٹھنڈا گوشت “لکھتا ہے تو اسے پڑھنے کے لئے ہر گھر پر پابندی لگا دی جاتی ہے ۔لیکن پھر جب یہ خبر آتی ہے کہ قبر کے پاس عورت کی برہنہ لاش ملی اسے قبر سے نکال کر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تو منٹو بہت یاد آتا ہے ۔
اتنے حساس معاملات پہ لکھنے والوں کو لوگ آزاد خیال بے شرم اور لبرل جیسے القابات سے نوازتیں ہیں شاید ہی کبھی تحریر کو چسکے سے زیادہ لیا گیا ہو ۔

دماغوں کو ایسی حدود میں قید کردیا گیاہے کہ انہیں کھولنے کے لئے الیکٹرک شاک دیناپڑے۔
آپ کیا اخذ کرتے ہویہ آپ پر ہے میرے نزدیک ہم اپنی اخلاقی روایات سے بہت دور ہوتے جارہے ہیں ۔جیسے جیسے ہم اپنے آس پاس موجود رشتوں اور تعلق رکھنے والے افراد کو غیر متناسب مقام دیتے رہیں گے ہمیں معاشرے میں بگاڑ نظر آئے گیں۔
اگر گلی محلے قبرستان محفوظ نہی تو امیر طبقہ بھی ان واقعات سے محفوظ نہیں ۔

جسے آپ زیاتی کہتے ہیں اسے پوش علاقوں میں ہراسمنٹ کہتے ہیں غریب کی بچی بچے کی خبر اخبار کی زینت بنتی ہے جبکہ امیر طبقہ ایسے واقعات کو دبا دیتا ہے ۔
یہ نفس کی جنگ روز اول سے ہے تا قیامت رہے گی ۔اسے ختم نہیں کیا جاسکتا لیکن اخلاقی اقدار کے دائرے متعین کرلینے سے روک تھام کی جاسکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :