منافقت

بدھ 22 دسمبر 2021

Saadia Muazzam

سعدیہ معظم

دن چڑھے جب وہ سوکراٹھی تو پیروں کی سنسناہٹ ابھی تک ٹھیک نہیں ہوئی تھی ۔من من بھر کے سوجے پیر بستر سے نیچے اتارکر کافی دیر وہ اٹھنے کی ہمت جمع کرنے لگی ، بالآخر وہ بستر چھوڑنے میں کامیاب ہوگئی ۔
اب وہ تھکنے لگی تھی شاید اسکی ٹھلتی عمر کا تقاضہ تھایا جسمانی کمزوری نہیں تو وہ اپنے کام میں ایسی ماہر تھی کہ اسکی ٹکرکی کوئی اور اس محلے میں موجود نہیں تھی۔


اس محلے پر دن بھر سناٹا طاری رہتا ۔گلی میں سبزی فروش کے علاوہ شاید ہی کوئی خوانچہ فروش قدم رکھتا ہو۔گلی کے نکڑ پر کن کٹا کتا اونگھتا رہتا ۔چوراہے پر دانہ پانی کے رکھے برتنوں پر غٹرغوں کرتے کبوتروں کی آمدورفت لگی رہتی ۔
سورج ٹھلنے لگتا تو ہر بالکونی روشن ہوجاتی دربان اپنے اپنے دورازے کھول کر سیٹھی ڈال کر بیٹھ جاتے ۔

(جاری ہے)

کہیں نورجہاں کے پرترنم گانے بجنے لگتے توکہیں لتا کے گیت سنائی دیتے۔

ہر طرف چہل پہل سی شروع ہوجاتی ۔
وہ بھی بالکونی پہ بال کھولے غازے لگائے اپنی محفل کے سامعین کے جمع ہونے کاانتظار کرتی ۔ دائی اماں کی اطلاع پر وہ ہال میں اپنی مخصوص اداؤں کے ساتھ داخل ہوتی اور اس وقت تک تھرتی رہتی جب تک ہال میں بیٹھا آخری شخص بھی چلا ناجائے ۔تھرکتے پیروں کے ساتھ لچیلا بدن جیب سے نوٹ نکلواتا رہتا اور دائی اماں وہ نوٹ سمیٹتی رہتی ۔


اس نے جب سے ہوش سنبھالا تھا اپنے آس پاس یہی سب ہوتے دیکھا تھا اپنی ماں کو یونہی شام میں تیار ہوتے دیکھنا اور پھر گھر میں ہی کہیں غائب ہوجانا اسے پریشان کردیتا تھا وہ دودھ کی بوتل ہاتھ میں لئے اپنی ماں کوآوازیں دیتی تو دائی اماں اسے گود میں دبک لیتی اور چپکے سے کہتی کہ اس کی ماں کام پر گئی ہے ۔آہستہ آہستہ اس کی سمجھ میں آنے لگا کہ ماں کو شام کے وقت آواز نہیں دینی ہے کچھ سمجھ بوجھ آنے پر اس نے  اپنی ماں سے بارھا اپنے باپ کے بارے میں پوچھا وہ ہربار اسے بہلادیتی ۔

۔۔۔۔۔۔وہ اسے کیا بتاتی جب خود اسے معلوم نہ تھا !!!
چارسال چار دن کی ہونے پر اس کی  دینی تعلیم شروع کروادی گئی۔سہ پہر ملانی صاحبہ آتی اور اسے دینی تعلیم دیتی وہ بہت ذہین بچی ہواکرتی تھی بہت جلد ہی اپنی تعلیم مکمل کرلی ۔دن بھر اسے سب اچھا لگتا کبھی بالکونی میں اپنی گڑیا کے ساتھ کھیلتی کبھی زینے پہ اونچ نیچ کھیلتی تو کبھی چھت پر دائی اماں کو گھسیٹ کرلےجاتی اور خوب دوڑ لگاتی ۔

لیکن رات کو اسے خوف آتا تھا انجان چہرے گھر کی بیٹھک سے زنان خانے جاتے دیکھ کر ہال میں رقص کی محفل اس اپنے کمرے میں قید کردیتے تھے ۔کب بچپن بیتا اسے پتا ہی نہیں چلا ۔
وہ تب تڑپ اٹھی جب اسے رقص سیکھنے کا حکم  ملا ۔سہ پہر ٹھلتے ہی ہال میں سب لڑکیاں جمع ہوجاتی اور رقاصہ انہیں رقص سکھاتی وہ ناچاہتے ہوئے بھی اس سیکھ کو سیکھ رہی تھی ،عقل اور شعور کے اس مقام پر پہنچ چکی تھی کہ یہ سمجھ سکے کہ اس کے آس پاس کیا ہوتا ہے وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ یہ سب کچھ اس نے بھی کرنا ہے ۔


ایک بات اپنے دل میں ٹھانے بیٹھی تھی اور برملا اس کااظہار بھی کیا تھا کہ اپنے ہاتھ کی رگ کاٹ کر اپنی جان دے دونگی لیکن کمروں میں ہونے والے شغل کا حصہ نہیں بنو گی ۔چاہے رات بھر رقص کروالو۔اس کی یہ بات مان لی گئی ۔
اس نے بھی اپنا وعدہ نبھایا رات گئے بنا رکے وہ ناچتی رہتی ناچتے ناچتے اس کے پیر زخمی ہوجاتے مگر وہ اس وقت تک نہ رکتی جب تک تبؔلے کی تھاپ خاموش نہ ہوجاتی۔


آج وہ اپنے دھکتے پیروں کے ساتھ بستر سے اٹھ کر غسل خانے گئی   ۔غسل خانے کے آئینہ میں اپنی شکل دیکھی تو دیکھتی ہی رہ گئی آنکھوں کے پاس نمودار ہوتی جھریاں اس کی عمر ٹھلنے کی نوید سنا رہی تھیں ۔اس کا دل گوندھ دیا ہو جیسے ایسی لہر دوڑی یہ دیکھ کر ۔وہ سوچنے لگی کہاں گنوادی اپنی عمر اپنا بچپن اپنی جوانی ،کئی سوال اس کے ذہن میں میں جنم لینے لگے وہ سب سوالوں کو جھڑک کر تازہ دم ہوئی ،دیوان خانے میں ناشتے پہ سب اس کا انتظار کررہے تھے ۔

اس کی نگاہیں سب کو ٹٹولتی اپنی ماں پر جاٹہری ،اپنی ماں کے چہرے میں اسے ایک یاسیت سی نظر آئی اس نے کبھی اپنی ماں کو اتنے غور سے دیکھا ہی نہیں ناہی کبھی اس سے پوچھا  کہ وہ کیسی ہے کس حال میں ہے وہ بچپن سے ہی اپنی ماں سے دور ہوگئ تھی یااسے دور کردیا گیا تھا کیونکہ جہاں وہ رہتی تھی وہ گھر تو تھا مگر آپس میں رشتے خون کے ہونے کے باوجود پرائے رکھنا پڑتے تھے تاکہ کسی کادرد آپ کی کمزوری نہ بن جائے۔


دوپہر اپنی ماں کے کمرے میں داخل ہوئی تو ماں کو بستر پر دراز پایا وہ پلنگ میں اپنی ماں کے پیروں کے پاس آبیٹھی ۔پیر دبانے کی اجازت پا کر وہ اپنی ماں کے پیر دبانے لگی ۔
ذہن تھا کہ سوالات پر سوالات پیدا کئے جارہا تھا۔آخر ہمت جتا کر پو چھ بیٹھی کہ ماں آپ اتنی اداس اور اکیلی کیوں ہیں آپ نے اس طرح زندگی گزارنے کاانتخاب کیوں کیا ۔
غربت ! بچپن میں ہی باپ نے غربت کے ہاتھوں بیچ دیا خریدار نے اپنے گھر کام پہ رکھنے کے بجائے اور زیادہ قیمت لگا کر یہاں لاکر بیچ دیا ۔

بہت تڑپی بہت روئی ،ایک بار بھاگ کر واپس باپ کے دروازے پر گئی لیکن اصلیت سن کر باپ نے بدنامی کے ڈر سے واپس بھیج دیا ۔کیا کرتی پھر اسی جگہ کی ہوگئی ۔ایک ہی بات سکھائی دنیا نے غریب کی عزت دو کوٹی کی ہے جب چاہوں بیچ دو ،جب چاہو قدموں تلے روند دو، اس جگہ سے باہر کی دنیا کے اپنے طور طریقے ہیں اپنی اجارہ داری ہے جس کو چاہے عزت دار کے سرٹیفکٹ بانٹے جس کو چاہے رسوا کرے ۔


پھر مجھے یہاں کی دنیا صحیح لگنے لگی یہاں امیر غریب کی تفریق نہیں سب ایک ہی مقصد سے آتے ہیں ۔اپنے وجود کے اندر بھرے غبار کو باہر نکالنے کوئی اپنی کمزوریاں دور کرنے آتا ہے تو کوئی اپنی تنہائی اور اپنی ناکامی کا غم غلط کرنا چاہتا ہے تو کوئی اپنی خوشی سے سرشار ۔۔۔۔۔۔غرض یہاں آکر سب ایک جیسے ہیں۔
وہ اپنی ماں کی بات سے متفق تھی اور مطمئن بھی اس نے بھی اپنی زندگی میں یہی دیکھا تھا وہ اچھی طرح یہ بات سمجھ گئ تھی کہ اس منافقت بھری دنیا میں واحد یہ جگہ ہی ہے یہاں منافقت نہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :