اسپیشل بچے

پیر 18 اکتوبر 2021

Saadia Muazzam

سعدیہ معظم

کچھ عرصے سے شعبہ تدریس سے تعلق ہے ۔ایسے میں ہر عمر کے بچیاں اور بچوں سے ملاقات ہوتی ہے ۔
عمر اور صحت کےحساب سے ہر بچہ کسی نہ کسی سرگرمی میں اپنی مہارت دکھاتا ہے ۔انہیں بچوں میں کچھ بچے ایسے بھی ملے ہیں جو ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند نہیں ہیں ۔جنہیں عرف عام میں اسپیشل بچے کہا جاتا ہے۔
اسپیشل بچے دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو جسمانی معزوری کا شکار ہوں اور دوسرے ذہنی معزوری کا شکار بچے۔

جسمانی معزوری سے زیادہ غور طلب ذہنی معزوری ہے۔ایسے  بچوں کی ذہنی نشونما عام بچوں کے مقابلے میں بہت آہستہ ہوتی ہے ۔عام بچہ جوکام فورا سیکھ سکھتا ہے اسپیشل بچوں کووہی کام سیکھنے میں وقت درکار ہوتا ہے اور ضروری نہیں کہ وہ مکمل طور پر اسے سیکھ سکیں ۔

(جاری ہے)

اس وقت جب کلاس میں تدریسی عمل جاری ہوتا ہے تو اسپیشل بچے سیکھنے کے بجائے مزید ذہنی دباؤ کا شکار ہوتا ہے کیونکہ وہ کلاس کے ساتھ کام کرنے سے قاصر ہے تو دوسری طرف استاد پہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے بچے کوکچھ نہ کچھ ضرور سکھا دے۔

ایسا ہونا بہت مشکل عمل ہے ۔
اسپیشل بچوں پہ یہ ایک ظلم ہے جو ان کے والدین ان پر کررہے ہیں ۔بڑی بڑی فیسیں ادا کردینے سے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے بچے کاحق ادا کررہے ہیں اور باقی بہن بھائیوں کی برابری کابرتاؤ رکھے ہوئے ہیں ۔جبکہ یہ سراسر ان اسپیشل بچوں کے ساتھ زیاتی ہے ۔اللہ پاک کی قدرت ہے وہ انسان کو اگر کسی کمی میں رکھتا ہے تو کہیں نہ کہیں کسی چیز کی زیادی کردیتا ہے ۔

یقینا اسپیشل بچے بھی اگر ذہنی کمزور ہیں تو اللہ نے ان کے اندر کوئی نہ کوئی صلاحیت پوشیدہ رکھی ہوتی ہے ۔مگر افسوس کہ ماں باپ اس موقع پر سمجھ داری سے کام لینے کے بجائے مقابلے کی دوڑ میں پڑ جاتے ہیں ۔اپنا اسٹیٹس برقرار رکھنے کےلئے کسی ایسے اسکول کی تلاش ہی نہیں کی جاتی جو ان معصوم بچوں کی ذہنی صلاحیت کودیکھتے ہوئے تدریسی عمل سے گزارتے ہیں ۔

ایسے اسکول بچوں کو ان کی صلاحیت کے معیار پر رکھتے ہوئے ان کے اسکلز پر کام کرتے ہیں ۔جس سے بچہ اپنی تمام تر توانائی اس پر مرکوز کردیتا ہے ۔اس دوران وہ کسی ذہنی دباؤ کا شکار نہیں ہوتا اس کے آس پاس اسے اپنی ہی طرح کے بچے نظر آتے ہیں جسکی وجہ سے احساس کمتری پیدا نہیں ہوتا۔وقت کے ساتھ ساتھ وہ آگے بڑھتا ہے ۔
ان اسکول میں بچوں کو لکھانے اور پڑھانے کی الگ  تکنیک استعمال ہوتی ہے جس سے آہستہ آہستہ وہ دو چار جملےلکھنےکے قابل ہوجاتے ہیں ۔


جبکہ عام اسکول میں وہ ہی بچہ روز بہ روز اپنے گرد ایک حصار کھنچتا رہتا ہے ۔اس کے دماغ کی صلاحیت اجاگر ہونے کے بجائے دباؤ کا شکار ہوجاتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس کا رویہ باقی کلاس کے بچوں کے لئے بھی مناسب نہیں ہوتا جس سے باقی بچے بھی اپنے کام پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے ان بچوں کی حرکتوں پر متوجہ ہوجاتے ہیں ۔
اسکول میں تعلیم تو دی جارہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ اسکول مالکان کے لئے ایک کاروبار ہے ۔

انہیں ہرصورت اپنا کسٹمر بڑھانا ہے ۔مہنگائی کےاس دور میں اس کاروبار میں سب سے زیادہ پیسہ ہے ۔جتنا بڑا نام اتنی بڑی فیس پس اس بات سے اسکول مالکان کوکوئی فرق نہیں پڑتا کہ جس بچے کوداخلہ دیا جارہا ہے اس کی ذہنی صلاحیت کیا ہے ۔اور ماں باپ حقیقت سے آنکھیں چراتے ہوئے نام وشان کی دوڑ میں ایک معصوم بچے پہ ظلم کے پہاڑ توڑتے ہوئے اسے ایک ایسی دوڑ میں کھڑا کردیتے ہیں جو اس کی ہے ہی نہیں ۔


اپنے بچے کوذہنی کمزور تسلیم کرنا بہت بڑی آزمائش ہے لیکن اس آزمائش کو تسلیم کرنے میں ہی عقل مندی ہے ۔وقت پر کئے گئے صحیح فیصلے پوری زندگی ستھاردیتے ہیں ۔ایک غلط موڑ منزل سے دور لے جاتا ہے ۔
التماس ہے ان ماں باپ سے جنہیں اللہ نے اپنے قریب رکھا اور اس آزمائش میں ڈالا خدارا اپنے بچوں پہ رحم کریں اور اس دوڑ سے نکال کر انھیں اس کی ریس میں کھڑا کریں یقین جانیں آپ کا یہ اقدام اس کا مستقبل بنا دے گا۔


دوسری طرف حکومت وقت کو چاہیے کہ اسکولوں کی اس دوڑ پر چیک اینڈ بیلنس رکھے ۔اسکوں میں داخلے کے وقت بچے کی صحت کاسرٹیفکٹ بھی جمع کرایا جائے ۔معاشرے کے کمزور ذہن بچوں کو ان کے مخصوص اسکولوں میں داخل کرایا جائے ۔اس طرح وہ بچے وقت آنے پر کسی قابل بن سکیں گے ۔اپنی اندرونی صلاحیت کواجاگر کرسکیں گے۔معاشرہ ایسے بچوں کوقبول کرے گا وہ اپنے دائرے زندگی میں روزگار ٹھونڈ سکیں گے اپنی جگہ بنانا ان کے لئے آسان ہوگا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :