استاد اور فوج

ہفتہ 10 اپریل 2021

Saadia Muazzam

سعدیہ معظم

حال ہی میں بہت عجلت کے ساتھ ایک قانون پاس ہوا ہے ۔جس کے مطابق اگرکوئی فوج کے خلاف توہین آمیز  رویہ اختیار کرے گا تو اسے دوسال قید اور پانچ لاکھ جرمانہ ادا کرنا ہوگا ۔
اس میں تو کوئی دورائے نہیں  ہے کہ ہمارے سپہ سالار انتہائی جان فشانی سے سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں اور اپنے گھر والوں سے صرف اس لئے دور رہتے ہیں کہ ہم اپنے گھروالوں کے ساتھ سکون کی نیند سو سکیں ۔

ان کی قربانی قابل احترام ہے اور ہم باحیثیت پاکستانی قوم انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کی ان کی قربانیوں کا کوئی مول نہیں ہے ۔
لیکن جب یہی فوجی بھائی اپنی وردی کا بھرم لے کر عوام کو زور دکھاتے ہیں تو ان پر تنقید کرنا عوام کا حق بنتا ہے یہ تنقید اسی ملک کے ایک ترمیمی آرٹیکل اے دس سے عوام کو حاصل ہے ۔

(جاری ہے)


ایک قطار کھڑی ہے اور سب سے پیچھے سے کوئی میجر کا بیٹا آکر قطار میں صرف اسلئے آگے آکر کھڑا ہوجائے کہ وہ میجر کا بیٹا ہے اور برملا یہ اظہار کرکے حق جتائے تو عوامی ردعمل کیا ہوگا یقینا عام آدمی کو اس کی یہ حرکت ناگوا گزرے گی ۔


اسی طرح ایک عزت مآب کرنل کی بیگم تھیں جنہوں ٹریفک سارجنٹ کو گاڑی روکنے پر چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا تھا ۔بے شمار ایسے واقعات ہیں جن کا ذکر یہاں لے بیٹھی تو کہیں پانچ لاکھ جمع نہ کرنا پڑجائیں اسلئے اصل مدعے پر آجاتی ہوں ۔
جس ملک میں فوجی توہیں پر قانون بن جائے کیا وہیں کوئی ایسا قانون ہے جو اس ملک کے اساتذہ  کو تحفظ فراہم کرتا ہو۔

جبکہ استاد بھی فوج کی طرح ریاست کے ملازم ہیں ۔یہ بات قائد اعظم نے کہی تھی کہ”مت بھولیں ۔فوج عوام کی ملازم ہے “۔
میرے فوج کوسات سلام لیکن استاد کی اس ملک میں کیا حیثیت ہے اس کا جواب مجھے ڈھونڈنا ہے ۔کیا استاد کا درجہ فوج سے کم اہم ہے ؟؟؟
حضور نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ ’’تیرے تین باپ ہیں، ایک وہ تیرے دنیا میں آنے کا باعث بنا، یعنی والد، دوسرا وہ، جس نے تجھے اپنی بیٹی دی، یعنی سسر اور تیسرا وہ، جس نے تجھے علم و آگہی سے نوازا، یعنی استاد۔

‘‘
امیرالمومنین سیّدنا عمر فاروقؓ سے پوچھا گیا ’’آپ اتنی عظیم الشان اسلامی سلطنت کے خلیفہ ہیں، کیا اس کے باوجود آپ کے دل میں کوئی حسرت باقی ہے؟‘‘ فرمایا! ’’کاش! میں ایک معلّم ہوتا۔‘‘
امیرالمومنین سیّدنا علی مرتضیٰؓ کا قول ہے کہ’’ جس نے
مجھے ایک حرف بھی بتایا، میں اسےاستاد کا درجہ دیتا ہوں۔‘‘
استاد جہاں قوم کامعمار ہوتا ہے وہیں اپنے گھر کا معاشی سہارا بھی ہوتا ہے ۔

اسے اپنی محنت کے عوض جو ملے اس سے اپنی اپنے گھر بار کی ضروریات پوری کرنا ہوتی ہیں ۔
جرمنی میں سب سے زیادہ تنخواہ اساتذہ کی ہے ۔جب چانسلر انجیلا مارکر سے ڈاکٹرز اور انجینئیرز نے سوال کیا کہ ہماری تنخواہ ایک استاد سے کم کیوں ہے تو جواب دیا کہ ایک استاد ہی ڈاکٹر اور انجئیر بناتا ہے اس لئے اسکی تنخواہ سب سے زیادہ ہے ۔
ایک ہمارا بد نصیب استاد ہے جو ہر سال ہی اپنی تنخواہ اور الاوئنسز کے لئے سڑکوں پہ نکلتا ہے۔


پچھلے کئی سالوں میں سے کچھ سالوں کا احوال دیکھیں تو ایک تعلیمی ادارہ جو بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں بچے بچیوں کو تعلیم دیتا ہے اس ادارے کا تعلق ورلڈ بینک کے گلوبل پارٹنر شپ فار ایجوکیشن پراجیکٹ سے ہے اور ان میں سے زیادہ تر خواتین ہیں جوبلوچستان کے دور دراز کے علاقوں میں پڑھاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان حکومت ان کو معاہدے کے مطابق مستقل نوکری نہیں دے رہی ہے۔


تاہم محکمہ تعلیم کے حکام کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے حکومت کو بھیج دی گئی ہے، منظوری ہوتے ہی حکومت ان اساتذہ کو مستقل کر دے گی۔یہ تمام خواتین اپنے حقوق کے لئے انتیس مارچ دوہزار اکیس کو کوئٹہ میں جمع ہوئی تھیں ۔
اسی طرح ایک دھرنا اسلام آباد کے ڈی چوک میں بیسک28 oct 2019 ایجوکیشن کمیونٹی اسکولز کے اساتذہ نے  دیا تھا۔ پہلے روز وزارت تعلیم کیساتھ مذاکرات بے سود رہے اور مظاہرین دوسرے روز بھی احتجاج پر ڈٹے رہے۔

انھوں نے کئی ماہ سے رکی ہوئی تنخواہوں کی ادائیگی اور ملازمتوں کی مستقلی کا مطالبہ کیا ہے۔
مظاہرین کا مزید کہنا تھاکہ تسلیاں دلاسے نہیں بلکہ مسائل کا حل چاہیے اور اس کے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ مظاہرین کا مزید کہنا تھاکہ 8 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ اساتذہ کیساتھ مذاق ہے۔اعلیٰ حکام سے اپیل کی ہے کہ تنخواہوں میں مہنگائی کو مدِنظر رکھتے ہوئے اضافہ کیا جائے۔


حقوق کی ادائیگی کیلئے دھرنا دئیے اساتذہ میں چاروں صوبوں کیساتھ آزاد کشمیر سے آئے مردوخواتین بھی شریک تھے۔
 پنجاب بھر کے سکینڈری اسکول ایجوکیٹرز (ایس ایس ایز) کا ٹیسٹ پاس کرنے والے اساتذہ نے مستقل نہ کیے جانے کے خلاف وزیراعظم عمران خان کی رہائش گاہ بنی گالہ میں احتجاجی دھرنا دیا۔
احتجاج کرنے اور دھرنا دینے والے اساتذہ کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کی۔

پولیس نے احتجاج کرنے والے کئی اساتذہ کو گرفتار بھی کرلیا۔
ذرائع کے مطابق پولیس نے 18 کے قریب اساتذہ کو گرفتار کر کے تھانے منتقل کردیا ہے۔
احتجاج کرنے والے اساتذہ کا کہنا تھا کہ 2014 میں این ٹی ایس امتحان پاس کرنے والے اساتذہ کو مستقل نہیں کیا جا رہا ہے۔ ہماری تعیناتی 2014 میں ہوئی اور پرانے طریقہ کار کے تحت ہی غیرمشروط طور پر مستقل کیا جائے۔

حکومت ہمیں مستقل کرنے کی بجائے نکالنا چاہتی ہےیہ 19 دسمبر2020 کاواقعہ ہے۔
غرض یہ کہ اس قدر معتبر رتبہ پہ فائز لوگ جو اس ملک کی نئ پود کو مستقبل کا معمار بنا رہیں ہیں ۔ان کے حقوق کے لئے آج تک ایسے کوئی قوانین مرتعب کیوں نہیں کئیے جارہے جس سے وہ اپنے آپ کو محفوظ تصور کریں اور اس طرح سڑکوں پہ نکل کر دھرنے پتھراؤ شیلنگ کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔
جس طرح اس ملک کی فوج قابل احترام ہے بالکل اسی طرح بلکہ ان سے بھی کہیں زیادہ اس ملک کا استاد قابل احترام ہے ۔
خدارا طاقت کے سرور سے باہر آکر بنیادی ضرورتوں پر بھی توجہ دی جائے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :