گالی اور ریپ‎

منگل 13 اپریل 2021

Saadia Muazzam

سعدیہ معظم

گالی
میں نے گالی دی آپ کو برالگا
آپ کوبرالگااسلئے کہ میں ایک عورت ہوں لیکن آپ نے کبھی یہ سوچا کہ آپکی ہر گالی عورت سے شروع ہوکر عورت پہ ہی ختم ہوتی ہے۔
حجاب حجاب کی رڑ لگا کر عورت کو ایک انوکھی چیز بناکررکھ دیا ہے ۔جہاں ہر گلی محلے کے نکڑ کی لڑائی میں عورت کو گالی دی جاتی ہے وہیں اب اسلام کے ٹھیکیدار برملا اپنے اخبارات میں انہیں گالیوں کا برچار کرنے لگیں ہیں ۔


پچھلے کئی سالوں سے سوشل میڈیا خبررسانی کا بہترین ذریعہ بن چکا ہے جو واقعات رات کی تاریکی میں دفن ہوجایاکرتے تھے ۔اب انہیں چھپانا ناممکن ہے موبائیل کیمروں نے یہ اور آسان بنا دیا ہے ۔
چھوٹے چھوٹے معصوم بچے بچیاں جنسی درندوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے لیکن اب اگر ایسے واقعات سوشل میڈیا پر آجائیں تو ملزمان ہکڑے جاتے ہیں سزا بھی ہوہی جاتی ہے ۔

(جاری ہے)


دنیا میں کوئی بھی مسلئہ گھمبیر شکل اختیار کرلے تووہاں اس مسلئے کے محرکات پر ریسرچ شروع ہوجاتی ہے ۔جیسے کہ جنسی ہراسانی ریپ کیسز خودکشی ۔لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں ایسے ریپ کیسز اور جنسی ہراسانی کو عورت کے لباس اور حجاب سے جوڑ دیا جاتا ہے ۔
تحقیق یہ بتاتی ہے کہ ایسے واقعات میں جنسی خواہش سے زیادہ برتری حاصل کرنے کازعم  غالب آتا ہے ۔

ذہنی طور پر ایسا شخص اس قدر کمزور ہوتاہے کہ اپنے جزبات کوقابو نہیں کرپاتا ۔
دل کڑا کرکے اپنے آس پاس یہ تلخ حقیقت  دیکھیں تو کہیں بیٹا اپنی ماں اور باپ اپنی بیٹی کو بھی نہیں بخشتا کہیں کہیں بھائی بہن بھی انہیں جزباتی غلطیوں کوسرزدر کرچکے ہیں ۔سوتیلے باپ کی بیٹیوں کے ساتھ نازیباحرکتوں سے ریپ تک کے واقعات عام ہیں ۔
سوشل میڈیا کی بدولت پچھتر فیصد واقعات منظرعام پر آجاتے ہیں انکی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ۔

ملک میں بڑھتے ہوئے ایسے واقعات کوکنٹرول کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے اور معاشرے کا رخ متعین کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے ۔اب اگر ملک کا وزیراعظم قوم سے خطاب کرے اور یہ کہے کہ بے حیائی کی وجہ سے ریپ کے واقعات ہوتے ہیں تو اس پر ہم صرف اپنا سر ہی پھوڑ سکتے ہیں کیونکہ دنیا ایسے واقعات پہ تحقیق کرکے یہ بات ثابت کرچکی ہے کہ عورت کے بھڑکیلے لباس ان واقعات کا موجب نہیں ہیں ۔


دنیا کے تین بڑے ممالک امریکہ برطانیہ اور ساوتھ افریکہ کے تحقیاتی اداروں نے اس پر مکمل تحقیق کرکے یہ ثابت کیاہے کہ یہ ایک نفسیاتی مسلئہ ہے۔
امریکہ کے ادارے OVC کی تحقیق کے مطابق پہلامفروضہ یہ ہے کہ ریپ جوش اور جزبات کا جرم ہے۔خیال کیاجاتا ہے کہ ریپسٹ انتہائی غیرمعمولی شہوت میں مبتلا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے پہ قابو کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔


جبکہ ماہر نفسیات نے ریپیسٹ ججز متاثرہ شخص کے انٹرویوز کے بعد یہ دریافت کیا کہ ریپ کے زیادہ تر واقعات میں جنسی خواہش کو کنٹرول کرنے کاواقعہ نہیں دیکھا گیا ،بلکہ جنسی حملے کے پیچھے جو محرک ہوتا ہے وہ اکثر دوسرے شخص کو کنٹرول کرنے اور اس پر قابو پانے کی خواہش ہوتی ہے ۔
دوسرا مفروضہ کہ جو خواتین محتاط ہوتی ہیں ان کا ریپ نہیں ہوتا بھی غلط ہے ایسی خواتین کا ریپ کہیں بھی کسی بھی جگہ پر ہوسکتا ہے ۔


برطانیہ کے تحقیقاتی ادارے CPS کے مطابق بھی یہی مفروضہ ہے کہ بھڑکیلے لباس اور اکسانے کی بنیاد پر ریپ ہوتا ہے ۔جبکہ ریپسٹ کی تحقیق کے دوران اور واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہی بات سامنے آتی ہے کہ ایسے واقعات ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت رونما ہوتے ہیں ۔
ساوتھ افریکہ کے تحقیقاتی ادارے ریپ کرائسس ہیلیبرک کے مطابق ریپسٹ سیکس کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے ۔


عورت کو گالی دینے سے لیکر عورت کی عزت تار تار کرنا درحقیقت کچھ مردوں کا نفسیاتی مسلئہ ہے ۔اس کے سدباب کے لئے قوانین بھی موجود ہے ۔
اب ان پر عمل کروانا ریاست پاکستان کا فرض ہے ۔معاشرے کی ان مکروہ روایات پر قابو پانے کے لئے ایسے اخبارات پر پابندہ لگا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے جہاں عورتوں کو شہ سرخیوں میں گالی سے مخاطب کیا جائے ۔کسی بھی باشعور معاشرے میں ایسے افراد جو عورت کو گالی دیتے ہیں وہ کسی ریپسٹ سے کم نہیں ہیں ۔ان کو بھی بالکل اسی طرح سزا دے کر یہ بات ثابت کی جائے کہ عورت زاد کا معاشرے میں ایک اہم کردار ہے اسے ہر برائی کی جڑ کہنا در اصل اپنی کوتہائیوں اور کمزوریوں پر پردہ ڈالنا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :