
فلسطین حالیہ جنگ بندی کے بعد
منگل 10 اگست 2021

صابر ابو مریم
(جاری ہے)
غرض یہ کہ اس تما م معاملہ م یں دس دن تک مسلسل فلسطینی عوام اور فلسطین مزاحمت کے ساتھ غاصب صہیونی ریاست کی جنگ جاری رہی ۔ دنیا نے دیکھا کہ اسرائیل نے کس طرح فلسطین کے متعدد علاقوں کو بمباری کا نشانہ بنایا اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بھی استعمال کیا ۔ میڈیا دفاتر بھی اسرائیل کی دہشت گردی سے محفوظ نہ رہ پائے ۔ دوسری طرف فلسطینی عوام نے کم وسائل اور اسلحہ کے ساتھ اسرائیل کی جارحیت کا مقابلہ کیا ۔ غزہ سے حماس نے مغربی کنارے کے فلسطینیوں کی مدد کر کے یہ ثابت کر دیا کہ اگرچہ اسرائیل نے غزہ اور مغربی کنارے کو جدا کر رکھا ہے لیکن فلسطینی سب ایک ہیں اور پورا فلسطین فلسطینیوں کا ہے ۔
دس یا گیارہ روزہ اس لڑئی کے بعد دنیا کے منظر نامہ پر خبر آئی کہ اسرائیل نے جنگ بندی کرنے کی درخواست کی ہے ۔ اس طرح یہ جنگ اپنے اختتام کو پہنچی کہ جس میں سیکڑوں فلسطینی شہید ہوئے اور ہزاروں ہی زخمی ہوئے ۔ انفرا اسٹرکچر تباہ و برباد ہوا ۔ دوسری طرف اسرائیل کو بھی فلسطینی مزاحمت کاروں کے ہاتھوں بھاری جانی ومالی نقصان اٹھانا پڑا جس کی وجہ سے ہی اسرائیل ظاہری طور پر اس جنگ بندی کے لئے امریکہ سے درخواست کرتا رہا ۔
جنگ بندی کا سنتے ہی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید زندگی جیسے تھی ویسے ہی بحال ہو گئی ہے ۔ حقیقت اس کے بر عکس ہوتی ہے ۔ یہی حال فلسطین میں ہوا ہے ۔ جیسے ہی جنگ بندی کا اعلان ہوا دنیا بھر میں فلسطین کے حق میں ہونے والے مظاہرے او ر ریلیوں میں بھی بتدریج کمی آنا شروع ہو گئی ۔ اسی طرح عالمی فورمز پر جہاں جہاں فلسطین کے حق اور فلسطینیوں کے حقوق کی آواز اٹھائی جا رہی تھی رفتہ رفتہ پہلے والی پوزیشن پر جانا شروع ہو چکی ہے ۔
عالمی برادری جو گذشتہ ستر سال سے فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز وجود کے تسلط پر خاموش تماشائی تھی جنگ کے ایام میں بالآخر مجبوری کے طور پر کچھ نہ کچھ اسرائیل کے خلاف بولنے پر مجبور تھی لیکن جنگ بندی کے اعلان کے بعد اب ایسا لگتا ہے کہ عالمی ادارے اور عالمی انجمنیں اور انسانی حقوق کی تنظی میں ایک مرتبہ پھت کسی گہرے نشہ میں مبتلا ہو چکے ہیں ۔ حالانکہ اس جنگ کو گزرے ابھی دو ماہ بھی ٹھیک سے نہیں گزرے ہیں ۔
اسرائیل آج بھی فلسطینی عوام کے گھرو ں کو مسمار کرنے کی کوشش میں مصروف ہے ۔ آج بھی شیخ جراح کے علاقہ میں اسرائیل دراندازی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہاہے ۔ آج بھی اسرائیل کی جیلوں اور عقوبت خانوں می موجود بے گناہ فلسطینی قید و بند کی سختیاں برداشت کر رہے ہیں ۔ ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دوں کہ انہ قیدیوں نے گذشتہ چند ہفتوں سے اپنی آزادی کی جنگ خود لڑنے کا فیصلہ کر رکھا ہے اور بھوک ہڑتال کئے ہوئے ہیں ۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ عالمی برادری او ر بڑے بڑے ادارے خواب خرگوش میں ہیں لہذا ان کی کی آزادی کا واحد راستہ صرف اور صرف بھوک ہڑتال میں ہے کہ یا تو وہ صہیونی زندانوں سے نجات پا کر آزاد ہو جائیں گے اور اپنے پیاروں کے پاس پہنچیں گے یا پھر شہید ہو کر شہداء کے پاس جا پہنچیں گے ۔ بہر حال دونوں صورت میں ہی آزادی ان کا مقدر بنے گی ۔
جنگ بندی کے بعد چونکہ دنیا فلسطین سے غافل ہو چکی ہے تاہم دنیا کو یہ بتانا مقصود ہے کہ اسرائیل نے مسلسل کئی مرتبہ غزہ اور ا س کے ملحقہ علاقوں پر مسلسل بمباری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ۔ نہ صرف غزہ پر بلکہ اسرائیل نے گذشتہ چند ہفتوں میں شام اور لبنان پر بھی حملے کئے ہیں البتہ لبنان پر اسرائیلی حملوں کے جواب میں لبنان میں موجود اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ نے جوابی کاروائی کی ہے اور اسرائیل کے فوجی ٹھکانوں کو اپنے راکٹ حملوں سے نشانہ بنایا ہے جس پر فلسطین میں موجود اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے اس اقدام کی حمایت کی ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیل چونکہ صہیونیوں کی ایک غاصب اور جعلی ریاست ہے کہ جس کے قیام سے قبل اور آج تک ایک سو سال سے بھی زائد کی تاریخ میں ہ میں صرف اور صرف جارحیت اور ظلم اور دہشت گردی کے سوا کچھ اور نہیں ملتا ہے ۔ اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کو توڑنا اور فلسطینیوں پر مسلسل اسی طرح کی دہشت گردانہ کاروائیوں کا سلسلہ جاری رکھنا نہ تو فلسطینیوں کے لئے کوئی نئی بات ہے بلکہ اس بات کو بیا ن کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ دنیا کے باضمیر افراد اور بالخصوص پاکستان کے شہر ی کہ جن کا لگاءو فلسطین اور فلسطینیوں کے ساتھ ہے وہ با خبر رہیں اور فلسطین کے مسئلہ کو فراموش نہ ہو نے دیں ۔ دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے پس منظر میں دنیا کا سب سے بڑا شیطان امریکہ او ر اس کی ناجائز اولاد اسرائیل چاہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین پس پشت چلا جائے اور دنیا اس مسئلہ کو فراموش کر دے تا کہ وہ آسانی سے پورے فلسطین پر صہیونی راج قائم کریں ۔ ہمارا فریضہ ہے کہ ہم فلسطین کے مظلوموں کی آواز کو بلند کریں ، فلسطین کا پرچم بلند رکھیں تا کہ صہیونی سازشیں پیدا ہونے سے قبل ہی دم توڑ جائیں ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
صابر ابو مریم کے کالمز
-
اسلام فوبیا کے مقابلہ میں دنیائے اسلام کا اتحاد ناگزیر
جمعرات 27 جنوری 2022
-
پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم اصول جارحیت کی مذمت
جمعرات 30 دسمبر 2021
-
اسرائیل کے ساتھ دوستی اور امن کا خواب
اتوار 19 دسمبر 2021
-
اعلان بالفور اور فلسطینیوں پر مصیبت کے سو سال
منگل 2 نومبر 2021
-
انسانی حقوق اور مغرب کا دوہرا معیار
منگل 26 اکتوبر 2021
-
فلسطین کا مقدمہ اور اقوام عالم
منگل 28 ستمبر 2021
-
ہم پاکستانی ہیں۔پاکستان ہمارا ہے!
جمعرات 9 ستمبر 2021
-
ایران یا امریکہ: فاتح کون ہے؟
پیر 6 ستمبر 2021
صابر ابو مریم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.