مینار پاکستان اور دھرتی ماں کا نوحہ

پیر 23 اگست 2021

Sarwar Hussain

سرور حسین

میں عموماً غیر ضروری موضوعات کو کالم کا حصہ بنانے سے گریز کرتا ہوں لیکن مینار پاکستان پر پیش آنےو الے واقعے نے اتنی جہتوں سے ذہنی اذیت کا شکار کیا کہ اس پہ کچھ پہلوؤں پر آپ سے "خیر طلبی "میں مخاطب ہونے پر خود کو آمادہ کرنا پڑا۔اس واقعے کی حقیقت کا پول تو اگلے ہی دن کھل گیا تھا جس پر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس کی غلط رپورٹنگ کرنےو الے یو ٹیوبرز اور میڈیا اینکرز  اپنی غلطی تسلیم کر لیتے تو شاید بات اتنا آگے نہ بڑھتی لیکن ایسی روایت تو ہمارے   ہاں اوپر سے نیچے تک کہیں پنپ ہی نہیں سکی  اور اسی  وجہ سے یہ لوگ  اپنے اس عمل کو جواز دینے کے لئے دوسری غیر متعلقہ اور پرانی ویڈیوز کو جھوٹ پر جھوٹ  کا خول چڑھا کر پیش کرتے رہے جس کا سلسلہ تاحال تھم نہیں سکا ۔

یاد رکھئے غلطی کو تسلیم کر کے معافی کی طرف لوٹنا شرف انسانیت کی علامت ہے اور اس پر ڈھٹائی اختیار کرنا اسی سے دور لے جاتا ہے۔

(جاری ہے)

  اس واقعے کو مسلسل یہی رنگ دینے کی کوشش کی جاتی رہی کہ پاکستانی معاشرہ اور اس میں موجود مرد وہ خونخوار بھیڑئیے ہیں جن سے کوئی بہن بیٹی کہیں بھی محفوظ نہیں ، جس  کو ہمسایہ ملک کے میڈیا نے خوب اچھالا جو اس کا سب سے دردناک پہلو ہے۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ دونوں اینکرز  جو میڈیا ، سیاسی شخصیات اور پولیس سمیت لا ءفورس حلقوں میں بھی تعارف رکھتے ہیں اس کے لئے وہاں آواز اٹھاتے اور ایسا ممکن نہیں تھا کہ ان کی شنوائی نہ ہوتی اور اگر بالفرض ایسا نہ ہوتا تو پولیس اور اداروں کے تعاون نہ کرنے کی وڈیو ضرور بناتے جس کے بعد یقیناً یہ معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہوجاتا لیکن یہ تو تب ہوتا جب  اس واقعے کو بیچنے اور کیش کرنے کی رال نہ ٹپک رہی ہوتی اور سب کچھ اسی ہوس میں ہوا۔

میری نظر میں وہ چار سو  اوباش لفنگوں کا ٹولہ اور میڈیا پر اس واقعے کو ڈرامائی انداز میں لانے والے ایک جیسی ذہنیت کے مالک ہیں جن کا سودا توخوب بک گیا لیکن ملک کے جسم پر جو زخم لگے وہ جلد بھرنےو الے نہیں ۔ الیکٹرانک یا سوشل میڈیا کے ذریعے ملنے والا فیم  اور تربیت کے سائبان سے دور کر دینے والی شہرت سے بالآخر ایسے ہی نتائج سامنے آتے ہیں۔

جب حادثاتی طور پر میڈیا اینکر اور سوشل میڈیا انٹرٹینر  صحافی بننے کی کوشش کرتے ہیں  تو ایسے ہی حادثات رونما ہوتے ہیں۔افسوس ہے پاکستانی میڈیا کے ان ذمہ داران پر جنہوں نے حقیقت جاننے کے باوجود لوگوں کی درست سمت  کی طرف رہنمائی نہیں کی ۔ حکومت وقت  کے اقدامات پر متعدد ہائی رینک  پولیس آفیسر  اور متعلقہ پولیس سٹیشن کے ڈی ایس پی اور ایس ایچ او بھی اس واقعے کی زد میں آئے اور  دوسری طرف ٹک ٹاکر خاتون نے  پولیس سے کاروائی کو آگے نہ بڑھانے کی درخواست کی جسے اب کسی طور قبول نہ کرتے ہوئے اس نحوست سے وابستہ ہر کردار کو سامنے لانا چاہئے۔

اس خاتون نے حسب توقع اپنے گھر  کا غلط ایڈریس رپورٹ میں درج کروایا اور جن کے گھر کا پتا لکھوایا وہاں رہائش پذیر بزرگ  میاں بیوی منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔اس واقعے کے مرکزی کردار یوٹیوب اور سوشل میڈیا کے شہزادے  رات   کےپچھلے پہر نہ جانے اس کے گھر پہنچے یا اس کو اپنے گھر لے گئے اور وہاں وہ مناظر اور سین فلمائے گئے کہ ہر طرف دھوم مچ گئی اور ایسے ایسے جملے تیار کئے گئے کہ خدا کی پناہ ۔

خاتون ٹک ٹاکر کا کہنا تھا کہ  میں نے کبھی بے ہودہ کپڑے نہیں پہنے اور نہ ہی  کبھی  بے ہودہ ویڈیو بنائی ہے  جس کی سچائی اب بچے بچے کے موبائل تک پہنچ چکی ہیں ۔ان ویڈیوز کو دیکھنے کے بعد آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان   کی نظر میں بے ہودگی کے کیا معنی ہو سکتے ہیں اور پھر  (نقل کفر کفر نہ باشد) کہنے لگی  کہ محرم کے ایام میں مجھے خود پر ظلم ہوتا دیکھ کر کربلا کی بیبیوں پر ہونے والے ظلم کی یا د آ گئی۔

الامان الحفیظ۔کسی کی دوبیٹیوں کو بیویوں کی صورت اپنانے والے برخوردارانہ عمر کے حامل  معروف اینکر کی پدرانہ شفقت  بھی کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہو گئی اور کیا زہرناک جملہ کہا کہ  اس ملک میں وہ خوش قسمت ہیں جن کی کوئی بیٹی نہیں ہے۔ ان دونوں نوجوانوں  سے میرا  ایک محبت کا تعلق ہے  اسی لئے میرا دکھ بھی بہت زیادہ ہے۔اس واقعے میں بنیادی سوال یہ ہے کہ جب ایک ہجوم  اس خاتون  کے ساتھ غیر اخلاقی حرکات سر انجام دے رہا تھا تو اس کے ساتھ آنے والے باڈی گارڈز اور خصوصاً افریقی النسل ریمبو کہاں تھا جو بقول اس خاتون کے اس کا پارٹنر ہے ۔

وہ مردانگی دکھاتے ہوئے  اس ہجوم  میں کچھ گھونسے تھپڑ ہی کھا لیتا جس سے کم از کم  اس کی میل ہی اتر جاتی۔ لیکن ساری صورتحال میں وہ پیچھے کھڑے ہو کر اپنی پارٹنر کی اس ساری بے حرمتی کو مانیٹر کرتا رہا حتی کہ پولیس کو فون بھی  اس خاتون نے ہی کیا۔قانون کی کتاب کے مطابق جب کہیں  گولی چلتی ہے تو فقط اسی کی بنیاد پر فیصلہ نہیں دیا جاتا بلکہ  اس ارتکاب جرم کےساتھ ساتھ محرکات جرم کو بھی دیکھا جاتا ہے کہ کون کون سے عوامل تھے جو اس جرم کی انتہائی کیفیت تک پہنچنانے کا سبب بنے۔

ان چار سو لوگوں کو اس قبیح جرم پر نشان عبرت بنا دینے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں لیکن اس کے بعد ان محرکات اور اس کا سبب بننے والے تمام زاویوں کو بھی قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیجئے۔ان تمام ویڈیوز کو بھی اس جرم کے ارتکاب کی وجہ بنائیے جن میں اسی عمل کے لئے تیار کیا جاتا رہا، ذہنی تیاری کے بعد  اس کی باقاعدہ دعوت دی گئی اور وہاں پہنچ کر بھی ہوائی بوسوں کی مسلسل بوچھاڑ  کے ساتھ ساتھ ، اپنے جسمانی خدوخال کی  براہ راست نمائش تب تک  کی گئی جب تک فینز کے  جذبات بے قابو نہ  ہو گئے۔

اور بقول وزیر اعظم مرد پھر کوئی روبورٹ تو نہیں ہوتا کہ وہ کسی بھی صورت آگے نہ بڑھے اور مرد بھی وہ جو ٹین ایجرہونے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کی بیہودہ دلدل میں  گردنوں تک دھنسے ہوئے ہوں تو  ان سے آخر کیا توقع کی جا سکتی ہے ۔اس بات پہ کوئی دو رائے نہیں کہ اس واقعے میں ملوث ہر ہر فرد کو قرار واقعی سزا دے کر نشان عبرت بنا دیا جائے۔ ایک ایسی بیٹی کی عزت جس کے ماں باپ بہن بھائی رشتہ داروں میں سے اب تک  اتنا سانحہ گزرنے کے باوجود کوئی سامنے نہیں آیااور اس کے دکھ میں سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر ہنگامہ برپا ہے بالکل اسی طرح اس واقعے کے دوران کہیں ایک ماں کی عزت بھی  اغیار کی نظر میں بری طرح پامال ہوئی ہے جسے دھرتی ماں کہتے ہیں، جس نے ہمیں عزت، شہرت، پہچان اور شان سے نوازا ہے۔

کوئی ہے اس کے حق  میں آواز اٹھانے  اور یہ بتانے والا کہ اس  کا پاکیزہ  وجود تار تار کرنے والوں کے لئے کون سی سزا تجویز کی جانی چاہئے؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :