ڈی ٹی ایچ ٹیکنالوجی اور پاکستان

ہفتہ 2 جنوری 2021

Shahzaib Saifullah

شاہ زیب سیف اللہ

دوست کے ساتھ گپ شپ کے دوران جب میں نے اسے بتایا کہ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو جنوبی ایشیا کے ہر ملک میں موجود ہے مگر پاکستان میں نہیں حتیٰ کہ جنگ زدہ افغانستان میں بھی کئی سالوں سے کام رہی ہے تو وہ حیران رہ گیا۔ اس کی حیرانگی میرے لئے بلکل اچنبھے کی بات نہیں تھی کیونکہ اکثر پاکستانی اس بات سے لاعلم ہیں۔ وہ ٹیکنالوجی کیا ہے؟ کیوں ضروری ہے ؟ پاکستان میں  اب تک کیوں نہیں؟
ڈی ٹی ایچ انگریزی لفظ  (ڈائریکٹ ٹو ہوم ) کا مخخف  ہے۔

  ڈی ٹی ایچ  ٹیلی ویژن پر جدید اور ایچ ڈی چینلز دیکھنے کا طریقہ ہےجس میں صارف کو ایک عدد دو فٹ اینٹینا اور ایک  عدد ریسیور (سیٹ ٹاپ باکس) چاہیے ہوتا ہے جو چھت یا کھڑکی پر رکھا جاتا ہے ۔ آپ چینلز  کے سنگنل سیدھا سیٹلائٹ سے لیتے ہیں اور مڈل مین یعنی کہ کیبل آپریٹر کی ضرورت نہیں پڑتی۔

(جاری ہے)

اس کا سب سے اہم فائدہ ہے کہ آپ اس میں 700 تک ہائی ڈیفینیشن چینلز دیکھ سکتے ہیں اور وہ بھی کیبل سے کئی گنا بہتر آواز اور تصویری معیار کے ساتھ۔

اس میں آپ کو صرف اپنی پسند ہی کے چینلز رکھنے کا اختیار بھی ہوتا ہے۔ اور اس میں کمپنی کی جانب سے کچھ چینلز ہوتے ہیں جن پر آپ اپنی پسند کی چیز لگوا سکتے ہیں جسکو انگریزی میں ویڈیو آن ڈیمانڈ  یا وی او ڈی  کہا جاتا ہے۔ اس کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے لیے آپ ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کی مثال لے لیں جیسے وہ اپنی خدمات موبائل اور انٹرنیٹ کے لیے مہیا کرتی ہیں اور آپ اپنی ضرورت اور پسند کا پیکج لگا لیتے ہیں بس آپ کے پاس اس کمپنی کا سم کارڈ اور موبائل ہونا چاہیے یہی کام ڈی ٹی ایچ کمپنیاں کرتی ہیں ٹی وی چینلز کے لۓ وہ آپ کو بہترین خدمات فراہم کرتی ہیں آپ کے پاس ان کا ریسیور باکس اور  سنگنل لینے کے لئے دو فٹ ڈش اینٹینا ہونا چاہیے اس کیلئے وہ  آپ سے ماہانہ یا سالانہ سبسکرپشن فیس لیتی ہیں جسکا کچھ حصہ ٹی وی چینلز کو جاتا ہے۔


انڈیا میں اس کا آغاز سن 2003 میں ہوا اور وہاں اب کئی ڈی ٹی ایچ کمپنیاں ہیں جن میں ڈش ٹی وی، ٹاٹا سکائی اور ویڈیوکون  شامل ہیں۔ انڈیا میں ایک سرکاری ڈی ٹی ایچ کمپنی بھی ہے جو ڈی ڈی فری ڈش کہلاتی ہے اس میں تمام فری ٹو آئر چینلز ہوتے ہیں ۔ جبکہ باقی ڈی ٹی ایچ میں مفت چینلز کے ساتھ وہ چینلز ہوتے ہیں جن کو دیکھنے کےلئے آپ کو سبسکرپشن فیس ادا کرنی پڑتی ہے ۔

افغانستان بھی اپنا ڈی ٹی ایچ ‘عقاب’ کے نام سے لانچ کر چکا ہے اور افغانستان کی عوام ملک کے کسی بھی کونے میں بیٹھ کر ایچ ڈی چینلز دیکھ سکتے ہیں۔
پاکستان میں متعدد بار ڈی ٹی ایچ لانچ کرنے کی کوشش کی گئی جو کبھی کیبل مافیا تو کبھی براڈکاسٹرز کی جانب سے عدالت کے ذریعے روڑے اٹکانے کی وجہ سے لانچ نہ ہو سکا بہرحال 2016  میں پیمرا نے عدالتی حکم پر  ڈی ٹی ایچ لانچ کر کے تین کمپنیوں کو  16 ارب روپوں کے عوض لائسنس دیے جن میں شہزاد سکاۓ، میگ ڈی ٹی ایچ اور چینی کمپنی سٹار ٹائمز شامل تھیں۔

جنہوں نے ایک سال کے اندر سروس شروع کرنی تھیں مگر 2021 آنے کے باوجود پاکستان میں یہ سروس شروع نہ ہو سکی۔ ۔
ڈی ٹی ایچ لانچ نہ ہونے کا نقصان نہ صرف عام صارفین کو ہوا ہے کہ وہ بہترین ٹیکنالوجی سے محروم ہیں بلکہ براڈکاسٹرز بھی کمائی کے ایک بہت بڑے زریعے سے فائدہ حاصل نہیں کر پا رہے۔ ورنہ پاکستانی چینلز ماہانہ سبسکرپشن کی مدد میں کروڑوں روپے کما سکتے ہیں۔

چینلز والے مفت میں کیبل والوں کو چینلز دیتے ہیں اور کیبل والے اسے لوگوں تک پہنچاتے ہیں لیکن انتہائی خراب معیار کے ساتھ ۔ ڈی ٹی ایچ کے ساتھ کیبل کا کردار ختم ہو جاۓ گا اور چینل والے سیدھا صارف تک چینل پہنچا سکتے ہیں اور سبسکرپشن کی مد میں بھاری منافع بھی کما سکتے ہیں۔ غیر قانونی بھارتی ڈی ٹی ایچ کی وجہ سے سالانہ اربوں روپے بھارت منتقل ہو رہے ہیں جو کہ پاکستان ڈی ٹی ایچ لا کر پاکستان میں ہی رکھ سکتا ہے اور کمپنیوں سے ٹیکس میں اربوں روپے بھی کما سکتا ہے ۔


اس کے علاوہ اس ڈی ٹی ایچ لانچ سے ہزاروں نوکریاں بھی پیدا ہوں گی جو کہ ٹیکنیشنز، سیلزمین اور کسٹمر کئیر وغیرہ کی صورت میں ہوں گی۔ یہ انڈسٹری ٹیلی کمیونیکیشن انڈسٹری کی طرح پاکستان کے لے سونے کی کان بن سکتی ہے۔
اگر ہم پاکستان میں بین الاقوامی معیاری چینلز دیکھیں تو وہ بہت ہی کم ہیں اور جو ہیں وہ بھی ہم کیبل کے فرسودہ نظام کے باعث بہترین معیار میں دیکھنے سے قاصر ہیں پاکستان میں ڈی ٹی ایچ کے لانچ ہوتے ہی پاکستان میں بہت سے بہترین مقامی اور بین الاقوامی چینلز آئیں گے جس سے پاکستانیوں کو نہ صرف بہترین تفریح میسر آۓ گی بلکہ پاکستان میں میڈیا کی مارکیٹ ویلیو میں بھی اضافہ ہو گا۔

 
 امید یہ بھی کی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں بہترین کھیلوں کے نئے چینلز بھی لانچ ہوں گے جو کہ ابھی پرانے کیبل کے نظام کی وجہ سے پاکستان میں نہیں آ رہے۔
اب حکومت کو کرنا یہ چاہیے کہ جلد از جلد کمپنیوں سے سروس شروع کرواۓ ورنہ پھر بھارت کی طرح ایک حکومتی فری ٹو آئر چینلز پر مشتمل سروس شروع کرے جس سے تمام پاکستانی چینلز عوام کو دور دروز علاقوں میں بھی دستیاب ہوں ۔ اس سے میڈیا کا بھی فائدہ ہے اور عوام کا بھی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ حکومت ڈیجیٹل پاکستان کے نعرے لگاۓ اور پاکستانی سالوں پرانے اینالوگ کیبل اور اینٹینے میں پھنسے رہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :